Deobandi Books

فضل العلم و العمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

21 - 29
ہوتی اور بعض اوقات جواب بے تحقیق لکھ دیا جاتا ہے ۔
چنانچہ میرے پاس بعض دستی فتوے آتے ہیں اور لانے والا تقاضا کرتا ہے کہ میں ابھی واپس جاؤں گا۔ آخر دوسرے کام کا حرج کر کے لکھنا پڑتا ہے اس میں بعض مرتبہ جلدی کی وجہ سے کسی پہلو سے نظر چوک جاتی ہے اور جواب میں غلطی ہوجاتی ہے ۔ بعض مرتبہ جواب لکنے کے لیے کتاب دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور عین وقت پر روایت نہیں ملتی ۔
ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ اسی طرح ایک شخص کو میں نے ایک مسئلہ فرائض کا جواب لکھ کر دیا ۔ جب وہ لے کر چلا گیا ۔ تب یاد آیا کہ جواب غلط لکھا گیا سخت تشویش ہوئی اس شخص کو تلاش کرایا تو نہ ملا اور یہ پوچھا نہ تھا کہ کدھر جاؤ گے ۔ آخر خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ یا الٰہی میرے اختیار سے تو یہ خارج ہوچکا ہے اب آپ کے اختیار کی بات ہے ۔ خدا تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی ۔ پندرہ منٹ نہ گزرے تھے کہ وہ شخص واپس آیا کہنے لگا کہ مولوی صاحب آپ نے مہر تو کی ہی نہیں ۔ مجھے بڑی مسرت ہوئی میں نے کہا کہ ہاں بھائی لے آؤ ۔ اس سے لے جواب کر صحیح کیا اور اس سے کہا کہ بھائی مہر تو میرے پاس نہیں ہے اس وقت تو خدا تعالیٰ نے میری دعا قبول فرما کر تجھے واپس بھیجا ہے کیونکہ مسئلے میں ایک غلطی ہوگئی تھی ۔ اس واقعہ کے بعد سے میں نے عہد کرلیا کہ کبھی دستی فتوے کا جواب نہ دوں گا۔ اکثر لوگ ایسے امور پر مجھے بے مروّت کہتے ہیں لیکن بتلائیے کہ ان واقعات پر کیوں کر خاک ڈال دوں ۔ اب میں نے یہ معمول کر رکھاہے کہ جب کوئی شخص دستی فتویٰ لاتا ہے تو اس سے کہتا ہوں کہ اپنا پتہ لکھ کر اور دو پیسے کا ٹکٹ دے کر رکھ جاؤ ۔ میں اطمینان سے جواب لکھ کر تمہارے پاس ڈاک میں بھیج دوں گا۔
میرے چھوٹے بھائی منشی اکبر علی صاحب توکبھی ایسا کرتے ہیں کہ جب کو کئی دستی خط دیتا ہے تو کہتے ہیں کہ اس کو لفافے میں بند کر کے پورا پتہ اس پر لکھ دوتاکہ پہنچانے میں سہولت ہو ۔ اس کے بعد دو پیسے کا ٹکٹ لگا کر اس کو ڈاک خانہ میں چھڑوا دیتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ دستی خط دینے کی زیادہ غرج یہی ہے کہ دو پیسے بچیں ۔ سو ہم اپنے پاس سے یہ دو پیسے صرف کردیں گے مگر ان خلجانوںسے تو بچیں گے ۔ اور شاذ ونادرجہاں بے تکلفی ہو وہ موقع تو مستثنیٰ ہے لیکن عام طور پر ایسا کرنا بڑی تکلیف کا موجب ہوتا ہے ۔
یہ چھوٹی چھوٹی مثالیں نمونہ کے طور پر عرض کردی ہیں ۔ مقصود یہ ہے کہ معاشرت ایسی ہونی چاہئے کہ کسی کو کسی سے تکلیف نہ پہنچے۔ 
ایک علمی نکتہ 
معاشرت کا مسئلہ قرآن شریف میں کئی مقام پر مذکور ہے ۔ چنانچہ ایک آیت میں ارشادہے 
یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَاتَدْخُلُوْا بُیُوتًا غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ

Flag Counter