Deobandi Books

فضل العلم و العمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

20 - 29
سے باہر تشریف لے گئے ۔غرض کئی جگہ لفظ ’’رویدا‘‘ آیا ہے ۔حدیث بہت بڑی ہے کہ حضرت عائشہ بھی چپکے سے اٹھ کر پیچھے پیچھے ہولیں ۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم جنۃ البقیع میں تشریف لے گئے پیچھے پیچھے حضرت عائشہ بھی رہیں ۔ جب آپ واپس ہونے لگے تو حضرت عائشہ جلدی سے آکر اپنے بستر پر لیٹ گئیں ۔حضور نے تشریف لا کر دیکھا کہ ان کا سانس پھول رہا ہے ۔پوچھا۔
مالک یا عائشۃ حشیا رابیۃ
یعنی سانس کیوں پھول رہا ہے ؟ انہوں نے چھپانا چاہا لیکن چھپ نہ سکا تب انہوں نے اپنے پیچھے جانے کا تمام قصہ بیان کیا ۔ آپ نے فرمایا شاید تم کو خیال ہوا کہ میں تمہاری باری میں کسی دوسری بیوی کے پاس چلا جاؤں گا تو ایسا کب ہو سکتا ہے ۔ بڑی حدیث ہے ۔ 
مجھ کو اس حدیث میں سے صرف بیان کرنا اس کا مقصود ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کہ آپ کی شان وہ محبوبیت مطلقہ ہے کہ اگر آپ کسی کو تکلیف بھی پہنچائیں تب بھی راحت ہی ہو ۔ پھر خاص کر حضرت عائشہ کے ساتھ کہ عاشق زار تھیں تو اگر ان کی آنکھ کھل بھی جاتی ۔ تب بھی ناگواری کا احتما نہ تھا لیکن چونکہ صورت تکلیف کی تھی اس لئے آپ نے اس کو بھی گوارا نہیں فرمایا ۔ تو اتنے موانع کلفت کے ساتھ جب آپ نے اتنی رعایت فرمائی تو ہم ک وکب اجازت ہے کہ کوئی ایسی حرکت کریں جس سے دوسروں کو تکلیف کا احتمال ہو ۔
بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہسفر میں جانے والے کو کچھ نہ کچھ فرمائش کر دیتے ہیں ۔ اس سے بعض اوقات اس قدر تکلیف ہوتی ہے کہ خدا کی پناہ ۔ جب میں کانپور میں تھا تو دیکھتا تھا کہ جب کوئی شخص لکنؤ جاتا تو لوگ فرمائش کردیتے کہ فلاں سے فلاں ترکاری لیتے آنا ۔ اور بعض اوقات اس مسافر کا جائے قیام سبزی منڈی سے اتنی دور ہوتا تھا کہ وہاں تک پہنچنے کے لیے کم از کم دو آنے میں یکہ کرایہ ہوتا ۔ تو دو آنے کرایہ کے اپنے پاس سے صرف کر تب اس فرمائش کرنے والے کی چار پیسے کی فرمائش پوری کرو اور شرم کے مارے یکے کے پیسے مت مانگو اور ایسا نہ کرو تو عمر بھی کی شکایت خریدو ں پھر بعض تو غضب کرتے ہیں کہ فرمائش کر کے قیمت بھی نہیں دیتے ۔ گویا وہ گھر سے خزانہ لے کر چلا ہے کہ اپنی اور دوسروں کی سب کی ضرورتیب پوری کر کے لائے گا۔ بعض لوگ ایسا کرتے ہیں کہ جب کسی کو جاتے ہوئے دیکھا ایک دستی خط کسی کے نام دے دیا ۔ اس میں بھی اکثر اوقات بہت تکالیف ہوتی ہیں ۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مرسل مطمئن ہو جاتا ہے کہ خط مکتوب الیہ کو پہنچ گیا مگر اتفاق سے خود وہ مسافر کبھی درمیان ہی میں رہ جاتا ہے کبھی خط ضائع ہوجاتا ہے ۔ یہ تو خود مرسل کی مضرت ہے کبھی مکتوب الیہ ک وتنگی ہوتی ہے کہ آرندہ تقاضا جواب کا کرتا ہے کہ میں جاؤں گا ۔ بعض اوقات تو فرصت نہیں 
Flag Counter