فرمائیں گے ۔ اور دوسرا حکم یہ فرمایا کہ اگر اٹھ جانے کا حکم ہوا کرے تو اٹھ جایا کرو۔ خدا تعالیٰ تم میں سے ایمان والوں کے اور اہل علم کے درجات بلند فرمائیں گے ۔ یہ حاصل ہے ارشاد کا اس تقریر سے آپ کو سببِ نزول آیت بھی معلوم ہوگیا اور حاصل آیت بھی جس میں حکم اور ثمرہ دونوں مذکور ہیں۔ اب میں وہ بات کرتا ہوں جس کا بیان کرنا اس وقت مقصود ہے ۔ میں نے کہا تھا کہ اس ثمرے کا ایک مبنٰی ہے ۔ اس میں غور کرنے سے وہ قاعدہ عامہ نکلے گا ۔ جس کا استحضار ہر وقت ضروری ہے ۔ سو یہاں ایک امر تو یہ ہے کہ ’’ تَفَسَّحُوْا ‘‘ اور ثمرہ یہ ہے کہ ’’یَفْسَحِ اﷲُ لَکُمْ‘‘ یعنی جنت میں فراخی ہوگی ۔ اور دوسرا حکم یہ ہے کہ’’ فَانْشُزُوْا‘‘ اور اس کا ثمرہ یہ ہے کہ ’’یَرْفَعِ اﷲُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا مِنْکُمْ‘‘ تو ان دونوں میں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ صدر مجلس کے کہنے سے فرخی کر دینے میں جنت میں فراخی کیوں ہوگی اور اٹھ جانے میں فرع درجات کیوں ہوں گے ؟
جس کو ذرا بھی عقل ہوگی وہ تو اس میں بالکل بھی تامل نہ کرے گا ۔بلکہ یہی کہے گا کہ مبنٰی یہ ہے کہ اس نے خدا ورسولؐکی اطاعت کی۔کیونکہ حضورؐکا ارشاد خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے اور اولی الامر کا حکم بھی خدا ورسول کا حکم ہے اس لئے کہ خدا تعالیٰ ہی نے ہم کو اولی الامر کا کہنا ماننے کو فرمایا ہے ۔ پس اگر ہم نے صدر مجلس کا حکم مان لیا تو خدا تعالیٰ کا حکم مان لیا۔ غرض پھر پھرا کر مبنٰی یہی نکلے گا کہ چونکہ اس امر کا امتثال کرنے والا خدا اور رسولؐ کا حکم ماننے والال ہے اس لیے اس کو یہ ثمرہ حاصل ہوا ۔
سو اصل مقصود اس وقت اسی امر کا بیان کرنا ہے کہ یہ آیت اس پر دلالت کر رہی ہے کہ خدا ورسولؐ کی اطاعت پر یہ دو ثمرے مرتب ہوتے ہیں۔ اور دوسرے مضامین اگر آئیں گے تو استطراداً اسی کی توضیح کے لیے آئیں گے یا بعض اس پر مرتب ہوں گے ۔
تعلیم جدید کی خرابیاں
اب رہی یہ بات کہ اس مضمون کو اس وقت کیوں اختیار کیا گیا اس کی بابت میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ آج کل اس کی سخت ضرورت ہے کہ خیالات اور آراء اس وقت نہایت منتشر ہیں اور طلب مال وطلب جاہ کا بہت چرچا اس وقت ہو رہا ہے جس کو دیکھئے اس میں منہمک ہے نیز ان کے لیے کچھ تدابیر بھی اپنی طرف سے تراش رکھی ہیں ۔ اور انمیں یہ بھی نہیں دیکیھا جاتا کہ کون سی تدبیر حالال ہے اور کون سی تدبیر حرام ہے ۔بکثرت خیال ادھر متوجہ ہیں اصل چیز مال اور جاہ ہے اور اسی کو ترقی کہا جاتا ہے اور اسی کے لیے سعی کی جاتی ہے خواہ وہ سعی شریعت کے موافق ہو یا مخالف چنانچہ ذرائع تحصیل مال وہ ہیں جن کی بدولت شریعت سے بعد چلا جاتا ہے ۔ مثلاً یہ کہ تعلیم جدید کمال کے ساتھ حاصل کرنا چاہئے ۔ اور اس میں بڑے بڑے درجے حاصل کرنے چاہئیں گو اس پر کیسے ہی آثار ومفاسد مرتب ہوں آج کل تعلیم جدید کے متعلق علماء پر اعتراض