Deobandi Books

فضل العلم و العمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

7 - 29
غرض اس ترقی کو قبلہ توجہ بنا رکھا ہے کہ حلال وحرام کی بھی مطلق تمیز نہیں رہی ۔ چاہے سود سے حاصل ہو چاہے رشوت سے حاصل ہو ۔ چاہے شریعت کو بھی بالکل چھوڑنا پڑے مگر یہ فوت نہ ہو ۔ چنانچہ بعض نے تو صریحاً یہ کہہ دیا کہ اس وقت حلال اور حرام کے دیکھنے کا وقت نہیں ہے ۔ یہ وہ وقت ہے کہ جس طرح ہو سکے روپیہ سمیٹ لو ۔غور کیجئے جب مسلمان ایسی رائے دینے لگے تو علماء کا کیا قصور ہے اگر وہ تعلیم جدید سے روکیں 
علی ہذا ترقی جاہ کہ اس میں بھی یہ تمیز نہیں رہی کہ ذریعہ اس کی تحصیل کا حلال ہے یا حرام ۔ اکثر ایسے ذرائع سے جاہ حاصل کی جاتی ہے جو کہ شریعت کے بالکل ہی خلاف ہے اور پھر اس پر طرہ یہ کہ جاہ سے کام بھی ناپاک ہی لیا جاتا ہے ۔ کبھی اس کو آلۂ ظلم وستم بناتے ہیں اور اسی ظلم کو اپنی شان ریاست سمجھتے ہیں۔ چنانچہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ’’لا ریاست الا بالسیاست‘‘۔ اور یہ جملہ فی نفسہٖ بالکل صحیح ہے لیکن سیاست کے معنی وہ نہی ہیں جو کہ ان لوگوں نے سمجھ رکھے ہیں یعنی ظلم کرنا۔ بلکہ سیاست کے معنٰی ہیں اصلاح ۔ اور اصلاح کہتے ہیں احکام کے جاری کرنے کو جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد ہے ۔
وَلَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا
جس کی کافی تقریر ایک مستقل وعظ میں ایک مقام پر بیان کر دی گئی ہے ۔ غرض مال اور جاہ کو لوگوں نے مقصود بالذات کے درجہ میں قبلۂ توجہ بنا لیا ہے اور یہ مرض بالکل عالمگیر ہوگیا ہے ۔ اسی لیے اس وقت اس کے بیان کرنے کی ضرورت معلوم ہوئی اور حق تعالیٰ نے اس آیت میں دونوں حکموں پر دوثمرے عجیب مرتب فرمائے ہیں جو اس وقت کے مقاصد کے نہایت مناسب ہیں ۔
عزت وذلّت کی علّت
’’یفسح‘‘ جس کے معنی ہیں فراخی۔ جو مناسب ہے ترقی مال وتنعم کے دوسرا’’یرفع‘‘ جو مناسب ہے ترقی جاہ کے ۔ گویا خدا تعالیٰ نے اس میں یہ فرمادیا ہے کہ اگر فراخی ورفعت ہو سکتی ہے تو اطاعت ہی سے ہو سکتی ہے ۔اور ہم سمجھ رہے ہیں کہ خلاف شریعت کرنے میں فراخی ہوگی ۔ اور شریعت پر عمل کرنے میں تو ناجائز عہدے متروک ہوں گے ۔ حرام مال سے بچنا پڑے گا ۔ تو بس تو پانچ روپے کے مُلّا رہیں گے ۔ پھر نہ پلیٹ فارم پر جا سکیں گے ۔ نہ بے ٹکٹ گاڑی میں بیٹھ سکیں گے ۔تو کچھ عزت بھی نہ ملے گی ۔ گویا ساری عزت پلیٹ فارم پر جانے میں ہے تو خدا تعالیٰ اس کو فرماتے ہیں کہ ترتب فراخی کا محض اطاعت پر ہے اور چونکہ حاصل مال کا تنعم ہے اور وسعت مکانی بھی ایک تنعم ہے ۔ لہٰذا اگر ہم اس مضمون کو ذرا وسیع کردیں تو مضائقہ نہیں ہے تو اب ہم یوں کہیں گے کہ تنعم یعنی ترقی مال اور رفعت یعنی ترقی جاہ دونوں اطاعت پر موقوف ہیں ۔ اگر یہ نہیں ہے تو نہ ترقی مال ہے اور نہ ترقی جاہ ہے ۔ بلکہ ذلت 
Flag Counter