لگا کہ ننانوے چابک تک تو محبوب بھی میرے سامنے کھڑا تھا ۔ مجھے یہ حظ تھا کہ محبوب میری حالت کو دیکھ رہا ہے اس میں تکلیف محسوس نہیں ہوئی اور اخیر کے چابک میں وہ جا چکا تھا اس لئے اس کی تکلیف محسوس ہوئی ۔ حق سبحانہ وتعالیٰ اسی کو فرماتے ہیں ۔
وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا
اور تو ٹھہرا رہ منتظر اپنے رب کے حکم کا تو تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے ۔
اس سے معلوم ہوتا کہ اس خیال میں بھی یہ خاصیت ہے کہ کلفت مبدل بہ راحت ہوجاتی ہے اور عشاق نے بھی اس کی تمنا کی ہے ۔
بجرم عشق تو ام میکشند غوغائیست
تو نیز بر سر بام آ کہ خوش تماشائیست
یہ جو بر سر بام بلا رہا ہے محض اسی حظ وراحت کے لئے ہے تو جب محبت میں یہ خاصہ ہے تو جن کو آپ تکلیف میں سمجھتے ہیں اور ان کی اس حالت کی برداشت پر تعجب کرتے ہیں اگر ان کو بھی اس تکلیف میں راحت ہوتی ہو تو کیا تعجب ہے ؟
حدیث شریف میں ہے کہ ایک صحابی نماز میں قرآن شریف پڑھ رہے تھے کہ ان کے ایک تیر آکر لگا لیکن قرآن پڑھنا ترک نہیں کیا ۔ آخر ایک دوسرے صحابی سوتے تھے ، جاگنے کے بعد انہوں نے اس حالت کو دیکھ اور بعد سلام ان سے پوچھا توتو فرمانے لگے ! جی نہ چاہا کہ تلاوت قرآن کو قطع کردوں ۔۱؎
غرض محبت ایسی چیز ہے لیکن چونکہ ہم نے محبت کا مزہ چکھا نہیں اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ مصیبت میں ہیں اور واقع میں وہ مصیبت میں نہیں ۔ کیونکہ مصیبت نام ہے حقیقت مصیب کا نہ کہ صورت مصیبت کا ۔ پس وہ شبہ بھی جاتا رہا کہ اﷲ والے مصیبت میں ہیں اور یہ بھی بھی ثابت ہوگیا کہ نافرمانی کے ساتھ راحت اور عزت نہیں ۔ اور اطاعت کے ساتھ تکلیف اور ذلت نہیں ۔ پس اگر ہم عزت کے خواہاں ہیں تو اطاعتِ خداوندی کو اختیار کریں ۔ ہم نے جیسے اس کو چھوڑ دیا ہے اسی وقت سے ہماری راحت اور عزت بھی جاتی رہی ہے مجھ کو اس وقت یہی بیان کرنا تھا جو کافی مقدار میں بحمد اﷲ بیان ہوچکا ہے۔
اصلاح اخلاق ومعاشرت
اب میں اس آیت کے متعلق کچھ فوائد متفرقہ بیان کرتا ہوں جو کہ زیادہ تر اہل علم کو مفید ہیں ۔ یعنی علاوہ مضمون مذکور کے اس آیت کے کچھ مدلولات اور بھی ہیں ۔ اور ان مدلولات میںبھی لوگ غلطی کرتے ہیں چنانچہ ایک مدلول یہ ہے کہ شریعت میں جیسے کہ عقائد اور معاملات وغیرہ مقصود ہیں اسی طرح حسنِ معاشرت بھی شریعت کا جزو ہے چنانچہ تفسح فی المجالس وقیام وقت حاجت جو کہ معاشرت میں سے ہے آیت میں صاف مذکور اور مامور بہٖ ہے ۔