Deobandi Books

فضل العلم و العمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

27 - 29
طبیب کا نسخہ پی کر ناز کرنے لگے کہ ہم ا یسے بزرگ ہیں کہ ہم نے دوا پی لی ۔ کوئی اس سے پوچھے کہ اگر دوا تو کس پر احسان کیا اور کیا کمال کیا ؟ نہ کرتا جہنم میں پڑتا ۔ البتہ بجائے ناز کے خدا تعالیٰ کا شکر کرنا چاہئے کہ اس نے اپنی اطاعت کی توفیق عطا فرمائی ۔ حاصل یہ کہ ’’الذین آمنوا‘‘ سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ گنہگار بھی رفعت عند اﷲ سے خالی نہیں ۔ 
قبول اعمال کا معیار
ایک مدلول اس آیت کا یہ ہے کہ ’’ الَّذِیْنَ آمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوتُوْا الْعِلْمَ‘‘ میں تخصیص بعد تعمیم سے معلوم ہوا کہ قبول اعمال کا تفاوت خلوص سے ہوتا ہے کیونکہ اہل علم کے درجات میں امتیاز اس خلوص ہی کے سبب سے تو ہوا جیسا اوپر مذکور ہوا اور اس مسئلے کو بیان کرنا اس لیے ضروری ہے کہ آج کل لوگ اعمال کے تو شائق ہیں لیکن خلوص کی پروا اکثر نہیں ہوتی ۔حالانکہ خلوص وہ چیز ہے کہ اس کی بدولت صحابہ کرام کا مرتبہ اس قدر بلند ہوا کہ ان کا نصف مد جَو خرچ کرنا اور ہمارا احد پہاڑ برابر سونا خرچ کرتا برابر نہیں ۔ 
اور اگر کوئی کہے کہ یہ صحبت نبویہ کی برکت سے ہے تو میں کہوں گا کہ ان کا خلوص بھی صحبت ہی کی برکت سے ہے تو یہ دونوں متلازم ہیں ۔ اب خواہ صحبت کو سبب کہہ دیجئے خواہ خلوص کو ۔ بالکل وہ حالت ہے کہ 
عباراتنا شتی وحسنک واحد 
فکل الٰی ذاک الجمال یشیر
کہ سب ایک ہی جمال کی تعبیریں ہیں ۔
میں نے اپنے پیرو مرشد سے سنا ہے کہ عارف کی ایک رکعت غیر عارف کی ایک لاکھ رکعت سے افضل ہے تو وجہ یہی ہے کہ اس کی ایک رکعت میں بوجہ معرفت کے خلوص زیادہ ہوگا۔ 
اسی مدلول پر ایک اور بات بھی متفرع ہوتی ہے یعنی آج کل اکثر لوگ بعضے انگریزی خوانوں کی تعریف کیا کرتے ہیں کہ یہ اس قدر انگریزی پڑھے ہوئے لیکن قرآن کے بہت کے پابند ہیں یا نماز پنج وقتہ پڑھتے ہیں اور ان کی باطنی حالت خلوص وغیرہ پر بالکل نظر نہیں جاتی ۔میں بھی مدتوں اس دھوکے میں مبتلا رہا ۔ مگر میرے ایک نوجوان دوست نے ایسے لوگوں کی نسبت کہا کہ بعض لوگوں میں دین کی صورت ہوتی ہے مگر دین کی حقیقت نہیں ہوتی ۔ یعنی ان کے دلوں میں دین رچا ہوا نہیں ہوتا ۔اسی طرح اس قسم کے لوگوں کے دلوں میں دین کی کوئی عظمت اور محبت نہیں ہوتی گو ظاہری اعمال کے پابند ہوتے ہیں مگر امتحان کے وقت معولم ہوجاتا ہے کہ ان میں کوئی خاص اہمیت ومحبت دین کی نہیں اور جب یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں ۔کیونکہ اصل دینداری یہی ہے کہ دل میں دین کی عظمت ومحبت گھس گئی ہو۔ اگرچہ شاذ ونادر کسی عارض کی وجہ سے اعمال میں کسی قدر کمی بھی ہوجائے ۔

Flag Counter