مالا مال ہوئے ۔ اﷲ اکبر۔ بیوی بھی ایسی شاکر صابر کہ جنت کے ادھار پر رضامند ہوکر خاموش ہوجاتیں ۔
ایک اور بزرگ کا قصہ ہے کہ ان کو ایک بادشاہ نے لکھا کہ آپ پر بہت تنگی ہے ۔ کھانے کی بھی ، کپڑے کی بھی ۔ بہتر ہو کہ آپ میرے پاس چلے آئیں اور یہاں رہیں ۔ آپ نے جواب میں ایک قطعہ لکھ کر بھیجا جس کے بعض اشعار یہ تھے ۔
خوردن تو مرغ مسمن دمے
بہتر ازو نانک جوینِ ما
پوشش تو اطلس ودیبا حریر
بخیہ زدہ خرقۂ پشمینِ ما
نیک ہمیں است کہ بس بگذرد
راحت تو سخت دوشینِ ما
باش تا طبل قیامت …
آن تو نیک آید ویا اینِ ما
واقعی وہاں جا کر نہ یہاں کا عیش رہے گا نہ مصیبت ۔ اور آخرت میں تو یہ گذشتہ چیزیں کیا یاد رہتیں ۔ دنیا ہی میں دیکھ لیجئے کہ عمر گذشتہ بیش از خواب نہیں ہے ۔ زمانہ گذرتا چلا جاتا ہے کہ جیسے برف کا ٹکڑا کہ پگھلنا شروع ہوا تو ختم ہو کر ہی رہے گا۔
اسی واسطے حدیث شریف میں ہے کہ جب قیامت کے روز اہل مصیبت کو بڑے درجے عنایت ہوں گے تو اہل نعمت کہیں گے کہ کاش ہماری کھالیں مقراض سے کاٹی گئی ہوتیں ۔ تو آج ہم کو بھی یہ درجے ملتے تو اس حالت پر نظر کر کے دیکھا جائے تو بے تأمل یہ کہتا پڑتا ہے کہ دنیا میں کچھ بھی نہ ملتا تو کچھ بھی حرج نہ تھا تو یہ اعتراض محض لغو ہے کہ یہ جنت کا وعدہ ہے ۔
صورت اور حقیقت کا فرق
صاحبو! کیا جنت تھوڑی چیز ہے ۔ ابھی چونکہ دیکھا نہیں اس لئے جنت کی کچھ قدر نہیں ہے ۔ جب دیکھو گے تو حقیقت کھلے گی اور جنہوں نے ان چیزوں کو دل کی آنکھوں سے آج دیکھ لیا ہے ان کی وہی حالت ہے جو دیکھنے والے کی ہوتی ہے ۔ رہا یہ شبہ کہ جب ہوگا تب ہوگا ۔ اس وقت تو مصیبت میں ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ آپ کی غلطی ہے اﷲ سے تعلق رکھنے والا کبھی مصیبت میں نہیں ہے ۔ بات یہ ہے کہ جس چیز کا نام آپ نے مصیبت رکھاہے وہ مصیبت ہی نہیں ہے ۔ تحقیق اس کی یہ ہے کہ جس طرح آرام کی ایک صورت اور ایک حقیقت ہوتی ہے اسی طرح مصیبت کی ایک صورت اور ایک حقیقت ہوتی ہے ۔
دیکھو اگر ایک شخص کا محبوب مدت کا بچھڑا ہوا اچانک مل جائے اور اس عاشق کو بہت زور سے اپنی بغل میں دبائے حتّٰی کہ اس کی پسلیاں بھی ٹوٹنے