سيرته في جزء الأمّة إيثار أهل الفضل بإذنه، وقسمه على قدر فضلهم في الدين، فمنهم ذو الحاجة، ومنهم ذو الحاجتين، ومنهم ذو الحوائج، فيتشاغل بهم ويشغلهم فيما يصلحهم والأمة من مساءلتهم عنه وإخبارهم بالذي ينبغي لهم، ويقول: ليبلّغ الشاهد منكم الغائب، وأبلغوني حاجة من لا يستطع إبلاغها، فإنّه من أبلغ سلطانا حاجة من لا يستطع إبلاغها ثبّت الله قدميه يوم القيامة، لا يذكر عنده إلّا ذلك ولا يقبل من أحد غيره. يدخلون روّادا ولا يفترقون إلّا عن ذواق ، ويخرجون أدلة يعني على الخير. قال فسألته عن مخرجه كيف كان يصنع فيه؛-کما فى رواية أخري عنه-فقال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم دائم البشر ، سهل الخلق،........لا يتنازعون عنده الحديث، من تكلّم عنده أنصتوا له حتى يفرغ،........ويصبر لغريب على الجفوة في منطقة ومسألته،........ ولا يقطع على أحد حديثه حتى يجوز فيقطعه بنهي أو قيام
شمائل ترمذى باب تواضع و باب خلق مىں دو لمبى حدىثىں ہىں ان مىں سے بعضے جملے نقل کرتا ہوں۔ حضرت حسىنؓ اپنے والد حضرت علىؓ سے نقل کرتے ہىں کہ رسول اﷲ جب اپنے مکان مىں تشرىف لے جاتے تو مکان مىں رہنے کے وقت کو تىن حصوں مىں تقسىم فرماتے، اىک حصہ اﷲ عزوجل (کى عبادت) کے لئے اور اىک حصہ اپنے گھر والوں کے (حقوق ادا کرنے کے) لئے اور اىک حصہ اپنى ذات خاص کے لئے۔ پھر اپنے کاص حصہ کو اپنے اور لوگوں کے درمىان اس طرح پر تقسىم فرماتے کہ اس حصہ ( کے برکات) کو اپنے خاص اصحاب کے ذرىعہ سے عام لوگوں تک پہنچاتے (ىعنى اس حصہ مىں خاص حضرات کو استفادہ کے لئے اجازت تھى پھر وہ عام لوگوں تک ان علوم کو پہنچاتے) اور اس مذکورہ حصۂ امت مىں آپ کى عادت ىہ تھى کہ اہل فضل (ىعنى اہل علم وعمل) کو (حاضرى کى) اجازت دىنے مىں دوسروں پر ترجىح دىتے تھے اور اس وقت کو ان پر بقدر ان کى دىنى فضىلت کے تقسىم کرتے تھے کىونکہ کسى کو اىک ضرورت ہوئى کسى کو دو ضرورتىں ہوئىں، کسى کو کئى ضرورتىں ہوئىں آپ (اسى نسبت سے) اُن کے ساتھ مشغول ہوتے اور ان کو بھى اىسے کام مىں مشغول رکھتے جس مىں اُن کى اور امت کى مصلحت ہو۔ جىسے مسئلہ پوچھنا اور مناسب حالات کى اطلاع دىنا اور آپ کے سب طالب ہو کر آتے اور (علاوہ علمى فوائد کے) کچھ کھا پى کر واپس جاتے اور دىن کے ہادى بن کر نکلتے (ىہ رنگ تھا مجلس خاص کا) پھر مىں اپنے باپ سے آپ کے تشرىف لانے کى بابت پوچھا(انہوں نے اس کى تفصىل بىان کى جس کو مىں اُنہى کى دوسرى حدىث سے نقل کرتا ہوں) حضرت علىؓ نے بىان کىا کہ رسول اﷲ ہر وقت کشادہ رو، نرم خو، نرم مزاج تھے۔ آپ کے سامنے لوگ آپس مىں جھگڑتے نہ تھے اور جب آپ کے روبر کوئى بات کرتا اس کے فارغ ہونے تک آپ خاموش رہتے اور آپ پردىسى آدمى کى گفتگو اور سوال مىں بے تمىزى کرنے پر تحمل فرماتے تھے اور کسى کى بات نہىں کاٹتے تھے ىہاں تک کہ وہ حد سے بڑھنے لگتا تب اس کو کاٹ دىتے خواہ منع فرما کر ىا اُٹھ کر چلے جانے سے (ىہ رنگ تھا مجلس عام کا) ىہ برتاؤ تو اپنے تعلق والوں سے تھا، اور مخالفىن کے ساتھ جو برتاؤ تھا اس کا بھى کچھ بىان کرتا ہوں۔