خدمت گذار و مددگار اور فرماں بردار اور خىر خواہ ہوتے ہىں (کما ہو مشاہد فى الاکثر) اور مرنے کے بعد اس کے لئے دعا بھى کرتے ہىں (عىن مشکوٰۃ باب العلم از مسلم) اور اگر آگے نسل چلى تو اُس کے دىنى راستہ پر چلنے والے مدّتوں تک رہتے ہىں (روح دوم نمبر5) اور قىامت مىں بھى اس طرح کہ جو بچپن مىں مر گئے وہ اس کو بخشوائىں گے (کتاب الجنائز) اور جو بالغ ہو کر نىک ہوئے وہ بھى سفارش کرىں گے (روح سوم نمبر 6و7) اور سب سے بڑى بات ىہ کہ مسلمانوں کى تعداد بڑھتى ہے جس سے دنىا مىں بھى قوت بڑھتى ہے اور قىامت مىں بھى ہمارے پىغمبر خوش ہو کر فخر فرماوىں گے۔ سو نکاح نہ کرنا اتنے فائدوں کو برباد کرنا ہے۔ اور اگر کسى مُلک مىں شرع کے موافق باندى مِل سکے تو ان فائدوں کے حاصل کرنے مىں وہ بھى بجائے بى بى کے ہے۔ پس بدون معقول عذر کے حلال عورت سے خالى رہنے کى برائى آئى ہے۔ چنانچہ:۔
عن أبي ذر: قال دخل عكاف بن بشر التميمي على النبي - صلى الله عليه وسلم - فقال له: ((يا عكاف هل لك من زوجة؟)) قال: لا. قال: ((ولا جارية؟)). قال: ولا جارية. قال: ((وأنت موسر بخير؟)) قال: وأنا موسر بخير. قال: ((وأنت إذا من إخوان الشياطين لو كنت في النصارى كنت من رهبانهم، إن سنتنا النكاح، شراركم عزابكم، وأراذل موتاكم عزابكم أبالشيطان تمرسون؟ ما للشيطان سلاح أبلغ في الصالحين من النساء، إلا المتزوجون، أولئك المطهرون المبرءون من الخنا. رواه احمد
ابوذرؓ سے رواىت ہے کہ عکاف بن بشىر تمىمىؓ نبى کى خدمت مىں آئے۔ آپ نے ان سے فرماىا اے عکاف! کىا تمہارى بى بى ہے؟ عرض کىا نہىں۔ آپ نے فرماىا اور باندى بھى نہىں؟ عرض کىا باندى بھى نہىں۔ آپ نے فرماىا اور خىر سے تم مالدار بھى ہو، وہ بولے خىر سے مىں مالدار بھى ہوں۔ آپ نے فرماىا پھر تو تم اِس حالت مىں شىطان کے بھائى بھى ہو۔ اگر تم نصارىٰ مىں سے ہوتے تو ان کے راہبوں مىں سے ہوتے، ہمارا (ىعنى اہل اسلام کا) طرىقہ نکاح کرنا ہے (ىا شرعى باندى رکھنا) تم مىں سب سے بدر مجر لوگ ہىں۔ شىطان کے پاس کوئى ہتھىار جو نىک لوگوں مىں پورا اثر کرنے والا ہو عورتوں سے بڑھ کر نہىں مگر جو لوگ نکاح کئے ہوئے ہىں وہ گندى باتوں سے پاک و صاف ہىں۔