قربانى جو کہ ان کا حق جائز بلکہ واجب ہے اس کے چھوڑنے پر مجبور کرتے ہىں جو سراسر ان کى زىادتى ہے اور چونکہ اوپر آىتوں اور حدىثوں مىں خاص گائے کا حلال ہونا اور اس کى قربانى کى فضىلت اور خود پىغمبر کا گائے کى قربانى فرمانا بھى مذکور ہے اس لئے مسلمان اس مذہبى دست اندازى کو گوارا نہىں کرتے اور اپنى جان دے دىتے ہىں جس مىں وہ بالکل بے قصور ہىں۔ سو اس کے متعلق مسئلہ سمجھ لىنا چاہئے کہ جس طرح اىسى مضبوطى کرنا جائز ہے؎ اگر کہىں اىسى مضبوطى کرنا خلافِ مصلحت ہو تو شرع سے دوسرى بات بھى جائز ہے وہ ىہ کہ اس وقت صبر کرىں اور قربانى نہ کرىں اور فوراً حکام کو اطلاع کر کے ان سے مدد لىں۔ اگر قربانى کى مدت مىں ىعنى بارہ تارىخ تک اس کا کافى انتظام کر دىا جائے قربانى کر لىں اور اگر اس کے بعد انتظام ہو تو اگلے سال سے قربانى کرىں اور اس سال قربانى کے حصّہ کى قىمت محتاجوں کو دے دىں۔
اور اگر پہلے سے معلوم ہوجائے کہ جھگڑا ہوگا تو اس وقت وہ طرىقہ اختىار