گذرچکى ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر نماز و زکوٰۃ و روزہ سب کرتا ہو مگر حجِ فرض نہ کىا ہو تو اس کى نجات کے لئے کافى نہىں۔ اور حج مىں اىک خاص بات اىسى ہے جو اور عبادتوں مىں نہىں، وہ ىہ ہے کہ اور عبادتوں کے افعال مىں کچھ عقلى مصلحتىں بھى سمجھ مىں آجاتى ہىں مگر حج کے افعال مىں بالکل عاشقانہ شان ہے ۔ تو حج وہى کرے گا جس کا عشق عقل پر غالب ہوگا اور اگر فى الحال اس مىں کچھ کمى ہوگى تو تجربہ سے ثابت ہے کہ عاشقانہ کام کرنے سے عشق پىدا ہوجاتا ہے۔ اس لئے حج کرنا کرنے سے ىہ کمى پورى ہوجائے گى، اور خاصکر جب ان کاموں کو اسى خىال کرے اور ظاہر ہے کہ جس کے دل مىں خدا تعالىٰ کا عشق ہوگا وہ دىن مىں کتنا مضبوط ہوگا تو حج کرنے مىں دىن کى مضبوطى کى خاصىت ثابت ہوگئى (اىسى ہى تقرىر روزہ کے بىان مىں گذرى ہے) اگلى حدىثوں سے اس کا پتہ چلتا ہے۔
عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إنما جعل الطواف بالبيت وبين الصفا والمروة ورمي الجمار لإقامة ذكر الله» رواه ابوداود
حضرت عائشہؓ سے رواىت ہے کہ رسول اﷲ نے فرماىا کہ بىت اﷲکے گرد پھرنا اور صفا مروہ کے درمىان پھىرے کرنا اور کنکرىوں کا مارنا ىہ سب اﷲتعالىٰ کى ىاد کے قائم کرنے کىلئے مقرر کىا گىا ہے (عىن ابوداود ، باب الرمل)