بستى کے لوگ زىادہ غرىب ہوں تو پھر اُن ہى کا حق زىادہ ہے۔ مگر جن کو زکوٰۃ دىنا ہو وہ نہ بنى ہاشم ہوں ىعنى سىّد وغىرہ اور نہ زکوٰۃ دىنے والے کے ماں باپ ىا دادا دادى ىا نانا ، نانى ىا اولاد ىا مىاں بى بى لگتے ہوں۔ اور کفن ىا مسجد مىں لگانا بھى درست نہىں، البتہ مىت والے کو اگر دے دے تو درست ہے۔ مگر پھر اس کو کفن مىں لگانے نہ لگانے کا اختىار ہوگا ، اور اسى طرح ہر انجمن ىا ہر مدرسہ مىں دىنا درست نہىں۔ جب تک مدرسہ والوں اور انجمن والوں سے پوچھ نہ لے کہ تم زکوٰۃ کو کس طرىقہ سے خرچ کرتے ہو اور پھر کسى عالم سے پوچھ لے کہ اس طرىقہ سے خرچ کرنے سے زکوٰۃ ادا ہوجاتى ہے ىا نہىں۔
(تىسرا مضمون)
مسلمانوں کى زىادہ پرىشانى ظاہرى و باطنى کا سبب افلاس ہے اور زکوٰۃ اس کا کافى علاج ہے۔ اگر مالدار فضول خرچى نہ کرىں اور ہٹے کٹّے محنت مزدورى کرتے رہىں اور معذور لوگوں کى زکوٰۃ سے امداد ہوتى رہے تو مسلمانوں مىں اىک بھى ننگا بھوکا نہ رہے۔ حدىث نمبر 6 مىں خود حضور کے ارشاد مىں ىہ مضمون صاف صاف مذکور ہے۔ فقط
اشرف على عفى عنہ