ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2012 |
اكستان |
|
اگر ہندوستان کی آبادی کے کل عناصر صلح و محبت سے رہیں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ اَور کوئی فوج چاہے وہ کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو اپنے ظلم و جبر سے اِس کو شکست دے سکے، ہاں میں اِس سے پہلے بھی کہہ چکا ہوں اَور پھر کہہ رہا ہوں کہ اگر آپ صلح و آشتی کی فضاء کو خوشگوار رکھنا چاہتے ہیں تو پھر اِس کی حدود کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کرلیجیے جس کی صورت اِس کے سوا کچھ بھی نہیں ہے کہ اپنے وطن کے کسی فریق کے مذہبی اُمور میں کوئی فریق مداخلت نہ کرے اَور ہر گز کوئی ایسا طریقہ اِختیار نہ کرے جس سے کسی مذہب کے ماننے والے کی دِل آزاری ہو، مجھے اَفسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ اَب تک بہت سی جگہ اِس کے خلاف ہوتا رہا ہے اَور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ دُوسرے مذاہب کے ماننے والے اِیذار سانی پر عمل کرتے رہے ہیں۔ میں اِس وقت خاص طور پر قوموں کے سربراہوں سے مخاطب ہوں کہ وہ ریزو لیشن اَور تجاویز پاس کر کے یہ نہ سوچ لیں کہ اَور تمام مرحلے طے ہوگئے یہ طریقہ سطحی لوگوں کا ہے بلکہ اُنہیں عمل سے تمام ملک کی قوموں کے اَفراد کے درمیان اِتحاد کی کوشش کرنی چاہیے، ایک دُوسرے کو نقصان پہنچانے کی یہ کوششیں جو اَنگریزوں کی نظر میں دونوں کے اِعتبار کو ساقط کرتی ہیں حصولِ آزادی کے حق میں سمِ قاتل ہیں اِس طریقہ سے نہ صرف ملک کی تمام اَقوام کا عظیم نقصان ہے بلکہ حصولِ آزادی کی راہیں بالکل مسدود ہو کر رہ جائیں گی، میں ایک بار پھر عرض کرتا ہوں کہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان صلح و آشتی نہایت ضروری ہے، مجھے اُمید ہے کہ آپ حضرات میرے اِس مشورے کو صرف سرسری نہیں لیں گے بلکہ سوچ سمجھ کر دل کے خلوص سے اِن باتوں کا عملی اِقرار کریں گے۔ '