ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2012 |
اكستان |
|
قسط : ١٣ پردہ کے اَحکام ( اَز افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اَشرف علی صاحب تھانوی ) اَجنبی مردوں سے عورت کو گفتگو کرنے کا شرعی طریقہ : قرآنِ مجید کے اَندر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اَجنبی مردوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کریں جس سے نفرت پائی جائے نہ کہ محبت و اُلفت۔ واقعی غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآنِ مجید میں جذبات کی پوری رعایت ہے نرم لہجہ سے اَجنبی شخص کو ضرور میلان ہوتا ہے۔ کیسی عجیب سچی بات ہے اَور سخت لہجہ سے اَجنبی مرد کو نفرت ہوتی ہے۔ (اَلغرض) عورتوں کے لیے قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ پردہ کے ساتھ اَجنبی مرد کے ساتھ نرم لہجہ سے گفتگو بھی مت کرو۔ اِس طرح سے آواز کا بھی پردہ ہے۔ عورت کے لیے تہذیب یہی ہے کہ غیر آدمی سے رُوکھا برتاؤ کرے۔ اَفسوس ہے کہ مسلمانوں نے قرآن شریف کو چھوڑ دیا۔حق تعالیٰ فرماتے ہیں : فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہ مَرَض وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا یعنی کسی سے نرم لہجہ سے بات نہ کرو۔ دیکھیے اِس آیت کی مخاطب وہ عورتیں ہیں جو مسلمانوں کی مائیں تھیں یعنی اَزواجِ مطہرات اُن کی طرف کسی کی بری نیت جا ہی نہیں سکتی تھی مگر اُن کی لیے بھی یہ سخت اِنتظام کیا گیا تو دُوسری عورتیں کس شمار میں ہیں۔ اَزواجِ مطہرات سے حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مردوں کے ساتھ نرم لہجہ سے بات مت کرو جب بات کرنا ہو تو خشک لہجہ سے کرو جس سے مخاطب یہ سمجھے کہ بڑی کھری اَور تلخ مزاج ہیں تاکہ لاحول ہی پڑھ کر چلا جائے ،نہ یہ کہ نرمی سے گفتگو کرو کہ میں آپ کی محبت کا شکریہ اَدا کرتی ہوں مجھے جناب کے اَلطاف ِ کریمانہ کا خاص احساس ہے۔اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ لوگوں نے آج کل اِس کو تہذیب سمجھ لیا ہے۔