ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2012 |
اكستان |
|
بنانے کے قابل ہیں اَور جہاں اِن پر عمل ہے وہاں کی لڑکیاں عمومًا حیاء دار اَور عفیف (پاکدامن) اَور خاوند کی تابعدار ہوتی ہیں۔ (حقوق البیت) فرمایا یہاں پر میں نے سب رسموں کے چھڑانے کی کوشش کی گو وہ فی نفسہ مباح تھیں کیونکہ اِس میں عارضی مفاسد تھے مگر دو رَسموں کے چھڑانے کی کوشش نہیں کی کیونکہ اُن میں مصالح تھے ،ایک تو لڑکی کو ہفتہ دو ہفتہ کے لیے مائیوں بٹھانے کا رسم ہے میں نے اِس کو نہیں چھرایا اِس میں حیاء کا تحفظ ہے اَور ایک منہ پر ہاتھ رکھنے کی رسم ہے اِس میں بھی حیاء کا تحفظ ہے۔ (الافاضات الیومیہ) ۔(جاری ہے) بقیہ : اَنفاسِ قدسیہ (١٢) آپ خطبہ بالکل سنت کے مطابق دیتے تھے خطبہ کے بارے میں رسول اللہ ۖ کا اَندازمنقول ہے۔ کَاَنَّہ یُنْذِرُ الْجَیْشَ گویا کہ کسی لشکر کو ڈرا رہے ہیں ۔ بالکل یہی اَنداز حضرت شیخ الاسلام کا تھا۔ ایک ایک چیز کو مکرر اِرشاد فرمایا کرتے تھے اَور اِتنا آسان کلام کرتے تھے کہ جاہل سے جاہل بھی سمجھ جاتا تھا۔ آنحضرت ۖ کا بھی یہی اَنداز ہوتا تھا۔ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعِیْدُ الْکَلِمَةَ ثَلَاثًا۔(ترمذی) ''حضور ۖ ایک کلمہ کو مکرر سہ کرر اِرشاد فرماتے تھے۔ '' کَانَ کَلَامُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَلَام فَصْل یَفْھَمُہ کُلُّ مَنْ سَمِعَہ ۔ (اَبوداود)''حضور علیہ السلام کا کلام مفصل ہوتا تھا کہ ہر سننے والا سمجھ جاتا تھا۔ '' غرض کہ حضرت شیخ الاسلام تمام عادات، حرکات، سکنات اَور تمام ضروریات ِ اِنسانی میں اَخلاقِ نبوت کواِختیار کیے ہوئے تھے اَور یہی سب سے بڑا کمال اَور سب سے بڑی کرامت ہے، اِسی کا نام'' کرامت ِ حقیقی'' یا'' کرامت ِ معنوی'' ہے۔(جاری ہے)