ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2012 |
اكستان |
|
Sukuk) ہوتے ہیں اَور اُن کا اِجرا کسی بینک کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ وہ بینک اِس مرکب کے صکوک بنا کر اُن کو فروخت کرتا ہے اِس مرکب میں اُدھار مرابحہ کو شامل کرنے سے دَین (قرض) کی بیع کا شبہ پیدا ہوتا ہے اگرچہ اِجارہ، مشارکہ اَور اِستصناع کی بہ نسبت مرابحہ کا حصہ کم ہی ہو لیکن اِتنی بات بھی مضمون میں نظر ثانی کا تقاضا کرتی ہے۔ اِسلامی صکوک پر دُوسرا تحفظ : صکوک کا بڑا حصہ حیلہ ہیں (١) ''صکوک کی ضرورت اَور فائدے'' کے عنوان کے تحت ہم نے مولانا تقی عثمانی مدظلہ کے ذکر کردہ تین نکتے نقل کیے تھے جن کا حاصل یہ تھا کہ بڑے بڑے کا روباری یا سر کاری منصوبوں کے لیے سرمایہ فراہم ہو اَور سرمایہ کار شریعت کی رُو سے حلال نفع کی ترغیب میں مطلوب سرمایہ فراہم کریں خواہ کسی کاروباری اِدارے کو براہِ راست دیں یا کسی مالیاتی اِدارے مثلًا بینک کی معرفت دیں۔ (٢) اگرچہ پیچھے صکوک کی کل چودہ قسموں کا ذکر ہوا ہے لیکن عملًا صکوک کی چند ایک ہی قسمیں رائج ہیں مثلًا صکوک ِ اِجارہ، صکوکِ مضاربہ اَور صکوک ِ مرابحہ اَور صکوک ِ مشارکہ۔ باقی قسمیں یا تو خال خال ہیں یا بالکل متروک ہیں۔ پھر اِن میں سے بھی بڑی اَکثریت اُن صکوک کی ہے جو کسی موجود جائیداد کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اِن صکوک کے خریدار اِس جائیداد کے مالک بن جاتے ہیںاَور پھر وہ صکوک جاری کرنے والا اِس جائیداد کو کرایہ پر لیتا ہے اَور اَخرجات منہا کر کے کرایہ صکوک کے خریدار و حاملین میں تقسیم کر دیتا ہے۔ حیلہ بھی صرف اِسی قسم میں جاری ہوتا ہے۔ اَب ہم کہتے ہیں کہ نفع کی ترغیب کے بغیر اِتنی بڑی تمویل اَور اِتنے بڑے قرض کا ملنا دُشوار بلکہ ناممکن ہے۔ سود سے اِجتناب کی صورت میں بیع بالوفاء یا بیع عینہ کے حیلوں کا تصور کیا جا سکتا ہے جن کو مجبوری میں اِختیار کیا گیا ہے غرض اُن کی رُخصت حاجت ومجبوری میں تھی۔ بیع بالوفاء کی صورت یہ ہے کہ زید بکر کے ہاتھ اپنی زمین پانچ لاکھ روپے کے عوض فروخت کرے اَور بکر سے کہے کہ جب میں یہ رقم واپس لاؤں گا تو یہ زمین تم میرے ہاتھ فروخت کرو گے۔ اِس