ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2012 |
اكستان |
|
ترجمہ معقول ہے۔ تو معنی یہ ہوئے کہ معقول بات کہو معقول بات وہی ہوتی ہے جس سے کوئی برا نتیجہ پیدا نہ ہو۔ اَور جب ثابت ہو چکا کہ لہجہ کی نرمی سے بھی عورتوں کے لیے برا نتیجہ پیدا ہوتا ہے تو پیارکی باتوں سے کیوں برا نتیجہ پیدا نہ ہوگا جس کو آج کل تہذیب سمجھا گیا ہے۔اِس قسم کی باتیں عورتوں کے لیے معقول نہیں بلکہ نا معقول ہیں۔ بد اَخلاقی و بد تہذیبی کا شبہ : عورت کے لیے تہذیب یہی ہے کہ غیر آدمی سے رُوکھا برتاؤ کرے اَور یہ کچھ تعجب کی بات نہیں کہ ایک بات ایک کے لیے معقول ہو اَور دُوسرے کے لیے نا معقول، ایک کے لیے سختی سے بات کرنا اَور بے رحمی سے جواب دینا معقول ہو سکتا ہے اَور دُوسرے کے لیے نا معقول ۔ مردوں کے واسطے باہمی کلام کا معقول طریقہ یہ ہے کہ نرمی سے بات کرو کسی کو سخت جواب نہ دو،رُوکھا پن نہ برتو۔ اَور عورتوں کے لیے معقول طریقہ یہ ہے کہ اَجنبی کے ساتھ نرمی سے بات نہ کریں اَور سختی سے جواب دیں اَور رُوکھا برتاؤ کریں۔ ایک ہی بات مردوں کے لیے بری اَور عورتوں کے لیے اچھی ہو سکتی ہے۔ عورتوں کے لیے یہی مناسب ہے کہ جب غیر مردوں سے بات کریں تو خوب رُوکھے اَور سخت لہجہ اَور ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ کریں اَوّل تو عورتوں کو غیرمردوں سے بولنا ہی نہیں چاہیے بضرورت بولنا جائز ہے تو اُس کا طریقہ یہی ہے۔ (کساء النسائ) حیا و شرم کا تحفظ : ہمارے یہاں رسم یہ بھی ہے اَور مجھے پسند ہے کہ لڑکیوں کا مردوں سے پردہ تو ہوتا ہی ہے غیر عورتوں سے بھی اُن کا پردہ کرایا جاتا ہے چنانچہ نائن دھوبن یا کنجڑ ن وغیرہ جہاں گھر میں آئے اَور سیانی لڑکیاں فورًا پردہ میں ہوگئیں۔ اِس طریقہ سے اُن میں حیاء شرم پوری طرح پیدا ہوجاتی ہے بیباکی اَور دیدہ چشمی نہیں ہونے پاتی۔ پہلے لوگوں نے اِس قسم کی بعض حکمت کی باتیں اِیجاد کی تھیں۔ سو واقعی اُن میںبڑی مصلحت ہے۔ گو بعضی فخر کی باتیں ہیں اَور اُن کو مٹانا چاہیے لیکن یہ حکمت کی باتیں دَستور العمل