ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2012 |
اكستان |
|
اَداکرنا واجب ہوتا ہے اَور منصوبے سے اُس نے جوکہیں زیادہ نفع حاصل کیا وہ سب کا سب منصوبے کے مالک کا ہوتا ہے اَور حاملین ِ سندات کو یہ حق نہیں ہوتا کہ وہ اپنے طے شدہ سود سے زیادہ نفع کا مطالبہ کر سکیں۔ یہ ممکن نہیں کہ سودی سندات کے یہ خصائص اِسلامی صکوک میں بلاواسطہ موجود ہوں لیکن اَب اِسلامی صکوک جاری کرنے والوں کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ سودی سندات کے بڑے بڑے خصائص سے اُن کے صکوک بھی مزین ہوں اگر چہ بالواسطہ ہی سہی اِس لیے اُنہوں نے مختلف خصائص کے حامل صکوک اَور مالی آلات (Instruments) اِیجاد کیے ہیں۔ اَصل منصوبے میں حاملین ِ صکوک کی ملکیت : اَکثر صکوک اِس نکتے میں سودی سندات سے واضح طور پر مختلف ہیں کیونکہ عام طور سے وہ اَصل شے کے غیر متعین (مشاع) حصے کی ملکیت کی نمائندگی کرتے ہیں جن سے نفع یا کرایہ حاصل ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ یہاں اَصل شے سے مراد اُجرت پر دی ہوئی اَشیاء وجائیداد ہیں یا تجارتی و صنعتی منصوبے ہیں یا متعدد منصوبوں کا مجموعہ ہے۔ یہ وہ واحد نکتہ ہے جو صکوک کو سودی سندات سے ممتاز کرتا ہے۔ لیکن اَب ایسے صکوک منظر عام پر آئے ہیں جن میں ملکیت کی نمائندگی مشکوک نظر آتی ہے اُن کی مثال یہ ہے : کبھی وہ اَثاثے جن کی نمائندگی صکوک کرتے ہیں کمپنیوں کے حصص ہوتے ہیں اَور اُن میں حقیقی ملکیت سرے سے نہیں ہوتی۔ حاملین ِ صکوک کو بس یہ تصور دیا جاتا ہے کہ وہ اُن کے نفع کے حقدار ہیں۔ یہ تو حصص کے نفع کی خریداری ہوئی جو شرعًا جائز نہیں ہے (کیونکہ حصص صکوک جاری کرنے والے کی ملکیت رہتے ہیں اَور وہ اُن کی بنیاد پر صکوک جاری کرتا ہے تو حاملین ِ صکوک اُن حصص کے مالک نہیں بنتے۔ البتہ حصص پر ملنے والا نفع حاملین ِ صکوک پر تقسیم کر دیا جاتا ہے)۔ اِسی طرح بعض صکوک اِجارہ، اِستصناع اَور (اُدھار) مرابحہ سے مرکب (