ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2012 |
اكستان |
|
حضرت خالد کا اِیرانی جرنیل کو دھمکی نامہ : اَور آپ نے یہ تو سنا ہوگا کہ حضرت خالد ابن الولید رضی اللہ عنہ نے ایک اِیرانی بڑے سردار نواب کو جو جنرل تھا اُس کو جواب لکھوایا تھا کہ ''یا تو تم یہ کرو اَور نہیں تو میں ایسے لوگوں کو لاؤں گا کہ جن کو موت اِتنی محبوب ہے کہ جتنی تمہیں شراب محبوب نہیںہے۔'' جتنی شراب کی تمہیں محبت ہے اُس سے زیادہ اُنہیں موت سے محبت ہے یعنی بے معنٰی موت مراد نہیں ہے بلکہ مطلب یہ کہ جہاد والی موت(اُن کو بہت محبوب ہے)۔ جانی نقصان بہت ہی کم ،تُرکوں کے خیالات : تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے لیے راستے کھولے جانی نقصان بہت کم ہوا، کہیں کہیں بہت زیادہ ہوتا رہا ہے یہ ٹھیک ہے لیکن جتنی فتوحات ہوئی ہیں اُس کے حساب سے دیکھا جائے تو وہ سب کم ہے بہت ہی کم بلکہ ترکی کا علاقہ جو اَب ہے ترکی شمار ہوتا ہے اَور یہ لبنان وغیرہ کا شمال کا علاقہ مشرقی علاقہ یہ جب فتح ہو رہا تھا تو ترکی لوگوں کا خیال یہ تھا کہ مسلمان تو مرتے ہی نہیں ہیں کیونکہ کوئی شہید ہی نہیں ہوا علاقہ فتح ہوجاتا شہید کوئی نہیں ہوتا حتی کہ اُنہوں نے ایک مسلمان آدمی کو اَچانک کہیں دیکھا اَور اُس پر ٹوٹ پڑے حملہ کیا اُن کو شہید کردیا پھر دیکھتے رہے کہ سچ مچ اِن کا اِنتقال ہو گیا ہے سچ مچ یہ مرگئے ہیں جب اُن کی وفات دیکھ لی پھر اُنہیں اَنداز ہو ا ہے کہ مسلمان مرتے ہیں اِن کو جنگ میں مارا جا سکتا ہے پھر وہ کہیں ڈٹ کر لڑے ہیں ورنہ وہ ڈٹ کر نہیں لڑتے تھے ویسے ہی ہتھیار ڈال دیتے تھے یا بھاگ جاتے تھے اَور اَگر لڑے بھی تھے کہیں تو نقصان ہی ہوا تھا اُنہیں۔ تو خدا کی تائید ہے یہ ، اَور جب کوئی آدمی جہاد پر جائے تو یہ نہیں ہے کہ مر ہی جائے ضرور۔ بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جہاد پر جائے اَوّل سے آخر تک میدانِ معر کہ میں رہے اَور نہیں لکھی ہے اُس کی موت تو کچھ بھی نہیں ہوگا، ایسی مثالیں موجود ہیں حضرت خالد رضی اللہ عنہ بھی فرما تے تھے کہ مجھے تو پسند تھی شہادت کی موت اَور اُن کی ساری عمر کا حصہ