ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2012 |
اكستان |
|
(١) آپ نے ہندوستان کی آزادی کے لیے پورے ملک میں ہونے والی منتشر کوششوں کو بڑی خوبصورتی سے منظم و مربوط کر دیا۔ (٢) شکوک و شبہات اَور مذہبی وعلاقائی تعصبات کی آگ میں جھلستے ہوئے قومی اِتحاد کو ایک نئی زندگی بخشی۔ (٣) اُخوت و بھائی چارگی کے لیے ترستی ہوئی ہندوستانی فضاء کو محبت کا ماحول فراہم کیا اَور اِس مبارک اِتحاد کو حصولِ آزادی کے لیے سب سے کامیاب ہتھیار قرار دیا، اپنے وصال سے صرف ایک ہفتہ پیشتر ١٩ /٢٠ /٢١ نومبر ١٩٢٠ء کو دہلی میں منعقدہ جمعیة علماء ہند کے دُوسرے کل ہند عظیم الشان اِجلاسِ عام کی صدارت فرماتے ہوئے اپنے خطبہ صدارت میں اُنہوں نے قومی اِتحاد پر بے اِنتہا زور دیا اَور اِس مختصر سے عرصہ میں جو پیش رفت ہوئی تھی اُس پر اِظہار ِ مسرت کرتے ہوئے ہندو و مسلم دونوں کو اِس پر مبارک بھی دی اَور ساتھ ہی بڑے مؤثر اَنداز میں اِس بات کا اِحساس بھی دِلایا کہ اِس پیش رفت کے باوجود اَبھی منزل بہت دُور ہے اَور ہمارا دُشمن کسی بھی وقت اِس کو برباد کر سکتا ہے اِس لیے اِس طرف سے ذرا بھی غفلت نہیں ہونی چاہیے۔ آپ اپنے خطبہ صدارت میں تحریر فرماتے ہیں کہ : ''اِس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہم وطنوں کو اِس پاک مقصد یعنی حصولِ آزادی میں آپ کا موید بنادیا ہے اَور میں اِن دونوں کے اِتحاد کو بہت مفید اَور ضروری سمجھتا ہوں، حالات کی نزاکت کے تحت جو کوشش اِس اِتحاد کے سلسلہ میں فریقین نے کی ہے اُس کی میرے دِل میں بہت قدر ہے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اگر صورت ِ حال اِس سے مختلف ہوگی تو وہ ہندوستان کی آزادی کو ناممکن بنادے گی اَور ظالم حکومت کا پنجہ روز بروز اپنی گرفت سخت کرتا رہے گا۔