ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2012 |
اكستان |
|
ایسی ہوتی ہیں؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ نہیں یا رسول اللہ! ہم عام کھجوروں کے دو صاع دے کر اِس کھجور کا ایک صاع یا عام کھجوروں کے تین صاع دے کر اِس کے دو صاع خریدتے ہیں۔ آپ ۖ نے فرمایا ایسا نہ کرو (کیونکہ یہ سود ہے) اِس کے بجائے عام کھجوروں کو دراہم سے بیچ دو پھر دراہم سے جنیب کھجور خرید لو۔ اِس حدیث میں خود رسول اللہ ۖ نے حرام سے بچنے کا حیلہ بتایا اَور اِس میں نہ تو یہ قید ہے کہ حیلہ کرنے والے خاص خاص اَفراد ہوں پوری قوم نہ ہو اَور نہ یہ قید ہے کہ اِجتماعی طور پر پوری قوم اِس حیلہ کواِختیار نہیں کر سکتی۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ جنیب کھجور میں حیلہ صکوک کے حیلے سے بہت مختلف ہے۔ جب ایک شخص روپوںمیں دو کلو گھٹیا کھجور فروخت کرتا ہے تو اُس کا یہ سودا مکمل اَور مطلق ہے۔ بائع اَور خریدار دونوں میں سے کوئی بھی کسی شرط کا پابند نہیں ہوتا۔ بائع چاہے تو جنیب کھجور سرے سے نہ خریدے اَور اگر خریدے تو چاہے پہلے خریدار سے خریدے اَور چاہے تو کسی تیسرے آدمی سے خریدے۔ اِس کے برعکس صکوک اِجارہ میں حاملینِ صکوک کے قبضے میں عین شے نہیں آتی اَور مدت ِ صکوک ختم ہونے پر عین شے جاری کرنے والے کے ہاتھ واپس فروخت کرنا لازم ہوتا ہے۔ (٢) مدرسوں میں حیلہ تملیک عام ہے : اِس کا جواب یہ ہے کہ اَوّل تو اِس حیلہ کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ کا فتوی ہے : ''مہتمم مدرسہ کا قیم و نائب جملہ طلبہ جیسا اَمیر نائب جملہ عالم کا ہوتا ہے۔ پس جو شے کسی نے مہتمم کو دی مہتمم کا قبضہ خود طلبہ کا قبضہ ہے (جیسے اَمیر کا یا بیت المال کے نگران کا قبضہ خود موجود اَور آیندہ آنے والے فقراء کا قبضہ ہے خواہ وہ کتنے ہی ہوں اَور کون کون ہوں۔ فقرا کا یہ قبضہ معنوی ہے کیونکہ اَمیر اِن کا نائب ہے۔ حسی قبضہ اُس