ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2012 |
اكستان |
|
یہ (کالجوں اَورسکولوں کی) تعلیم عورتوں کے لیے تو نہایت ہی مضر ہے۔ عورتوں کی دینی تعلیم کا وقت بچپن کا ہوتا ہے مگر آج کل شہروں میں بچپن ہی سے لڑکیوں کو نئی تعلیم دی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اِس تعلیم کے آثار و نتائج اُن کے رَگ و پے میں سرایت کر جاتے ہیں پھر دُوسری کوئی تعلیم اُن پر اَثر ہی نہیں کرتی۔ لڑکیوں کی مثال بالکل کچی نرم لکڑی کی سی ہے اِس کو جس صورت میں قائم کر کے خشک کردو گے تمام عمر ویسے ہی رہے گی ۔جب بچپن ہی سے نئی تعلیم دی گئی نئے اَخلاق سکھائے گئے نئی وضع قطع نئی طرز ِ معاشرت اُن کی نظروں میں رہا تو وہ اُسی میں پختہ ہوگئیں بڑی ہو کر اُن کی اِصلاح کسی طرح نہیں ہو سکتی لہٰذا ضرورت ہے کہ بچیوں کو نئی تعلیم کے بجائے پرانی (دینی) تعلیم دیجیے۔ (کساء النسائ) اَجنبی مرد سے نرمی سے گفتگو کرنے کا نقصان : اِس کی دلیل بھی خود اِس آیت میں موجود ہے کہ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ کے بعد ہی بطورِ نتیجہ کے فرماتے ہیں فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہ مَرَض کہ اگر نرم لہجہ سے بات کی گئی تو جس کے دِل میں رَوگ ہے اُس کے دِل میں لالچ پیدا ہوگا اَور وہ لہجہ کی نرمی سے سمجھ لے گا کہ یہاں قابو چل سکتا ہے وہ اِس کی تدبیریں اِختیار کرے گا۔ دیکھیے خود حق تعالیٰ لہجہ کی نرمی کا یہ اَثر بتا رہے ہیں پھر کسی کی کیا مجال ہے کہ اِس اَثر کا اِنکار کرے۔ میں اپنی طرف سے تو نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ اَلفاظ ِ قرآنی صاف بتلا رہے ہیں کہ عورتوں کا مردوں سے نرم گفتگو کا یہ اَثر ہوتا ہے کہ اُن کے دِلوں میں لالچ پیدا ہوتی ہے۔ گفتگو کا طریقہ و قولِ معروف کی تشریح : اِس کے بعد یہ بھی حکم ہے کہ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ جب بات کرو بھی تو ایسی کرو جس کو شریعت میں اچھا مانا گیا ہو۔ ٭ ایک تو یہ ہے کہ بے ضرورت اَلفاظ مت بڑھاؤ کیونکہ شریعت اِس کو کسی کے لیے پسند نہیں کرتی، شریعت نے کم بولنے ہی کو پسند کیا ہے۔ ٭ دُوسرے یہ کہ ہر بات کو سوچ کر کہو کوئی بات گناہ کی منہ سے نہ نکل جائے۔ معروف کا