ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2012 |
اكستان |
|
قسط : ٥ ، آخری شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی کی زندگی ایک نظر میں ( حضرت مولانا ڈاکٹر خالد محمود صاحب سومرو،جنرل سیکرٹری جمعیة علماء اِسلام سندھ ) حضرت مولانا ڈاکٹر خالد محمود صاحب سومرو نے یہ مقالہ ڈسٹرکٹ کونسل ہال سکھر میں بتاریخ ٢٦ صفر المظفر ١٤٣٣ھ / ٢١ جنوری ٢٠١٢ء بروز ہفتہ جمعیت علماء اِسلام ضلع سکھر کی طرف سے منعقد ہونے والے شیخ الہند سمینار میں پیش کیا۔ ہندوستان کے علمائے حق نے جو مسلسل سوا سوبرسوں سے اَنگریزوں کے مقابل بر سر پیکار تھے اَور اَب تک آزادیٔ وطن کے لیے پانچ راؤنڈ اِنتہائی خوفناک جنگیں لڑچکے تھے جن میں اپنی لاکھوں قیمتی جانوں کو ملک و ملت کی نظر کر چکے تھے، اَب حضرت شیخ الہند کے اِن رہنماء اُصولوں کی روشنی میں عدم ِتشدد، عدم ِ تعاون، ترک ِموالات اَور مذہبی اِتحاد کو بنیاد بناکر ١٩٢٠ء میں آزادیٔ وطن کے لیے چھٹے فیصلہ کن راؤنڈ کا آغاز کیا۔ حضرت شیخ الہند ١٩٢٠ء میں مالٹا کی قید سے رہا ہو کر ہندوستان تشریف لائے تو اِس قدر نحیف و نزار ہو چکے تھے کہ اَب اُن میں چلنے پھرنے کی بھی سکت باقی نہیں رہی تھی لیکن وہ اپنی جدو جہد سے دَستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں تھے، طلباء علماء مریدین ومجاہدین کی تعلیم و تربیت کے لیے جگر سوز جدوجہد کے علاوہ شب و روز کی جان گسل عبادت و ریاضت نے اُنہیں اِس قدر نڈھال کردیا تھا کہ وہ مالٹا سے واپسی کے بعد صرف پانچ ماہ کے اَندر ہی اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے ۔صرف پانچ ماہ کی قلیل مدت میں اِتنی شدید ترین علالت اَور جسمانی نقاہت کے باوجود جبکہ آپ کا چراغِ زندگی اَمراض و آزار کی تیزو تند آندھیوں سے اپنے بقاء کی آخری جنگ لڑ رہا تھا آپ نے کئی ایسے کارہائے نمایاں اَنجام دیے جنہیں تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔