ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2012 |
اكستان |
|
جذبہ اَور شوق بس یہی جہاد ہو گیا تھا۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو یرموک کے معرکے میں چوٹ لگی تھی تو وہ زخم بھراہی نہیں تھا وہ خلا رہا کمر میں، اُن کی چھوٹی عمر کے بیٹے ہیں یعنی اُن کی آخری عمر میںجو پیدا ہوئے ،صحابی نہیں ہیں اُن کا نام عُروة ہے بہت بڑے عالم گزرے ہیں مدینہ منورہ کے ،وہ بتلاتے ہیں کہ جب میں چھوٹا تھا تووہ نظر آتے تھے تو میں اُن میں اُنگلیاں ڈال ڈال کر کھیلتا رہتا وہ زخم وہ تھے جو یرموک میں اُن کو آئے تھے۔ تو اِس طرح سے جہاد جو ہے بڑا مشکل کام ہے قرآنِ پاک میں آگیا ہے یہ۔ ''حدیث ''قرآن کی شرح ہے : تو حدیث شریف کایہی قاعدہ ہے کہ جتنی بھی حدیثیں ہم تک پہنچی ہیں خدا کا شکر ہے اِن سب حدیثوں کی مطابقت ہے قرآنِ پاک سے ،قرآنِ پاک میں جو آیا ہے اَحادیث میں اُس کی شرحیں جیسے ہوجاتی ہیں یہ نہیں ہے کہ قرآنِ پاک میں کچھ آیا حدیث میں اُس کے خلاف آگیا ہو، ایسے نہیں ہے۔ یہاں سرورِ کائنات علیہ الصلوة والسلام نے اِرشاد فرمایا کہ اَگر کوئی یہ جانچنا چاہے کہ میرا اِیمان کتنا ہے تو فرمایا کہ میں اُس کے نزدیک محبوب ہوجاؤں اُس کے باپ سے بھی اَور اُس کی اَولاد سے بھی ،باپ سے محبت تو بچے کو رہتی ہی رہتی ہے جب تک خود اُس کے بچے نہ ہوں تو ماں باپ ہی ہیں اُس کی نظر میں، سب سے زیادہ یہ محبوب ہوتے ہیں۔ جب شادی ہوگئی تو کسی کی اَولاد ہوتی ہے کسی کی نہیں ہوتی لیکن ماں باپ تو ہیں(مطلب یہ ہے کہ ہر اِنسان کے والدین ہوتے ہیں لیکن بچے ہر ایک کے ہونے ضروری نہیں)۔ تو اِس لیے رسول اللہ ۖ کے کلام میں پہلے ماں باپ کا ذکر ہے پھر بعد میں اَولاد کا ذکر ہے، اگرچہ اَولاد کی محبت اِتنی ہوجاتی ہے کہ جس میں ماں باپ کی پیچھے چلی جاتی ہے، یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ماں باپ کی کم ہوگئی مگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بچوں کی اَولاد کی محبت اِس قسم کی ہے کہ جس کی وجہ سے اِن کی طرف زیادہ ذہن رہتا ہے آدمی کا اَور یوں کہا جا سکتا ہے کہ ماں باپ سے زیادہ اَولاد کی ہوجاتی ہے۔