ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2012 |
اكستان |
|
خاتمہ اچھا ہو گیا خدا کی راہ میں جہاد کے لیے گیا تھا اَور شہید ہو گیا تو کوئی بات نہیں کیونکہ ہمارا اپنا بھی تو کوئی پتہ نہیں کہ کتنے عرصے رہنا ہے اَور حسن ِخاتمہ اُسے نصیب ہو گیا شہید ہونا نصیب ہو گیا خدا کی راہ میں اِس سے بڑی سعادت کیا ہے یہ اُن کا ذہن بن گیا تھا۔ دین کی برکت : صدمہ بھی، برداشت بھی : یہ مطلب نہیں ہے کہ اُنہیں صدمہ ہی نہیں ہوتا تھا کسی کے مرنے کا یا کسی کے شہید ہونے کا یہ بات بھی نہیں ہے صدمہ بھی ہوتا تھا مگر برداشت بھی ہوتی تھی۔ آپ اپنے دِلوں کو دیکھ لیں جتنے لوگ اِسلام سے، تعلیم سے تھوڑے بہت واقف ہوگئے ہیں اُن کا حال یہی ہے کہ اُن کے عزیز کا اگر اِنتقال ہو اَور اچھی حالت میں ہو تو اُنہیں ایک طرح کی تسلی رہتی ہے کہ موت تواِس کی اچھی ہوئی ہے اَور دُوسری طرح کا غم بھی ہوتا ہے اَور وہ شدید ہوتا ہے وہ یہ کہ اَب مل ہی نہیں سکتے زندگی بھرکوئی طریقہ نہیں کہ ملاقات ہو جائے اُس سے ،یہ غم بھی اپنی جگہ درست ہے اَور وہ سہارا بھی اپنی جگہ درست ہے وہ سہارا یہ ہے کہ موت اچھی ہوئی ہے اُس کی تو اِن حضرات کو یہ سہارا بہت زیادہ تھا اَور اپنی موت کو وہ بالکل برا نہیں سمجھتے تھے۔ اَپنی موت کے لیے جہاد میں جو بھی جاتے تھے تیار رہتے تھے۔ میدانِ جنگ میں ہنسنا مسکرانا : مشکوة شریف ہی ہے یہ، اِس کے آخر میں آتا ہے کہ ایسے لوگ کہ جو میدانِ جنگ میں ہو ں اَور ہنس بھی رہے ہوں یہ دیکھنے میںہی نہیں آیا سوائے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے کہ میدانِ جنگ میں ہوتے تھے جہاں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کس سیکنڈ اِنتقال کر جائے آدمی کس سیکنڈ کو ئی تیر آکر لگ جائے اَور وہ ختم ہوجائے وہاں باتیں کرتے تھے اَور ہنسی کی بات ہوتی تھی یامسکراہٹ کی تو مسکراتے بھی تھے ہنستے بھی تھے ،اِس کا مطلب یہ ہے کہ میدانِ جنگ اُن کے لیے اگرچہ موت کا بازار ہوتا ہے مگر وہ اِسے موت کا بازار ہی نہیں سمجھتے تھے وہ اِسے جنت الخلد کا راستہ سمجھتے تھے۔