ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2012 |
اكستان |
|
کا منافع اَور رجسٹرار کی فیس کا بچا ہوا اَور روپیہ اگر محض دفتری کارو بار چلانے کے لیے رکھا جائے اَور مالکان سرمایہ کو حصہ رسدی تقسیم نہ کیا جائے نہ اَز رُوئے قواعد اُن کو طلب کرنے کا حق دیا جائے اَور فاضل منافع کو کسی وقت بھی مالکان سرمایہ کا حق قرار نہ دیا جائے بلکہ بصورت کمیٹی کا کاروبار ختم کرنے کے بقیہ منافع کو غرباء پر تقسیم کر دینے کا قاعدہ مقرر کر دیا جائے اَور کوئی صورت اِس میں شخصی اِنتفاع بالقرض کی نہ ہوتی ہو تو اِس میں مضائقہ نہیں معلوم ہوتا۔ '' آخر میں ہم کہتے ہیں کہ مذکوہ بالا تنقید صرف ہم نے نہیں کی بلکہ اُصولی طورپر خود مولانا تقی عثمانی مدظلہ نے بھی کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں : ''یہ درست ہے کہ جہاں دُوسرے طریقے ممکن ہوں وہاں محض حیلوں کو مستقل معمول بنانا کوئی اچھی حکمت ِ عملی نہیں ہے اِسی لیے ہر طرح کے وسائل رکھنے والی حکومت سے خطاب کرتے ہوئے بندے نے اِس پر تنقید کی ہے کہ وہ اَربوں روپے کی سرمایہ کاری میں ایسی حکمت ِ عملی اِختیار کرے جو صرف حیلوں پر مبنی ہو۔'' (غیر سودی بنکاری ص ١٩٥) (جاری ہے) مخیرحضرات سے اَپیل جامعہ مدنیہ جدیدمیں بحمد اللہ چار منزلہ دارُالاقامہ (ہوسٹل )کی تعمیر شروع ہو چکی ہے پہلی منزل پر ڈھائی کروڑ روپے کی لاگت کا تخمینہ ہے، مخیر حضرات کو اِس کارِ خیر میں بڑ ھ چڑھ کر حصہ لینے کی دعوت دی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ (اِدارہ)