ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2012 |
اكستان |
مولانا خلیل اَحمد صاحب سہارنپوری رحمة اللہ علیہ کے ساتھ بھی تعلقات کا اِظہار فرماتے ہیں اَور یہ کہ اُنہوں نے مدینہ منورہ میں اُن کی نمازِ جنازہ پڑھائی، وغیرہ۔ وہ ذکر فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ وہ حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ کو بھی بریلی میں اَحمد رضا خاں صاحب سے ملانے کے پرو گرام سے لے گئے تھے اُدھر ہمارے اَکابر نے ایسے سب رجال ِکار کا ذکر کردیا ہے جنہوں نے ذرا بھی ایسے کاموں میں حصہ لیا ہو اَور سب ضبط ِتحریر میں آچکا ہے۔ ایسا اہم شخص جو اُن اَکابر کے ساتھ شریک ِ معرکہ بھی رہا ہو، بقید ِحیات ہو، سفر بھی بکثرت کرتا رہتا ہو بلکہ سیاح ہو حضرت شیخ الہند اَور حضرت مولانا خلیل اَحمد صاحب سے اُن کی ملاقات بھی رہی ہو، تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ شیخ الہند اَور حضرت سہارنپوری کے عظیم المرتبت اَور جلیل القدر خدام میں سے کوئی بھی واقف نہ ہو۔ کوئی تو ذکر کرتا یا پہچانتا۔ میں نے حضرت مولانا عزیز گل صاحب مدظلہم العالی سے دریافت کیا کہ جناب اُنہیں جانتے ہیں یا نہیں ؟ اَور کیا کبھی حضرت شیخ الہند سے یا اپنے کسی بزرگ سے اُن کا ذکر سنا ہے یا نہیں ؟ تو حضرت کا جواب آیا کہ ''نہ میں شخص ِمذکور سے واقف ہوں نہ اُن کے بارے میں کبھی کسی سے کچھ سنا '' اِسی طرح شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب اَور حضرت والد صاحب جو اِسی قافلۂ مجاہدین بلکہ تحریک ِ ولی اللّٰہی کے سب سے بڑے مؤرخ ہیں ........ اِن سے ناواقف ہیں وہ بھی قطعی لاعلمی کا اِظہار فرماتے ہیں، موصوف کی یہ بے اَصل باتیں بہت مشہور ہو گئی ہیں اَور باعث ِ اعتراض ہیں تو ایسی غلط باتیں وہ کیوں کرتے ہیں ؟ حضرت مولانا بنوری رحمةاللہ علیہ نے میرے سوال پر قدرے سکوت کیا، پھر فرمایا کہ ''اِس عمر میں ایسی باتیں ہوجایا کرتی ہیں۔'' (مولانا بنوری کو)حضرت مولانا عبدالہادی صاحب دام ظلہم سے اِسی طرح کی عقیدت بھری محبت تھی۔ حضرت نے مولانا بنوری کو اپنے مدرسہ کا سنگ ِ بنیاد رکھنے کے لیے بلایا۔ آپ کراچی سے کسی صاحب ِ خیر کا ایک چیک بھی ساتھ لائے جو پچاس ہزار کا تھا، جب آپ نے وہ پیش کیا تو