ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2012 |
اكستان |
|
دونوں حضرات نے اِس مختصر کتاب ''رسالہ'' کو دیکھا اَور بہت پسند فرمایا اَور فرمایا کہ شرح کی ضرورت نہیں ایسے ہی طبع کرادیں فرمایا کہ ہم وفاق کے نصاب میں داخل کردیں گے۔ اِن حضرات کی رائے اِس قدر قوی دیکھ کر میں نے اِس کے پازیٹو بنوالیے۔ لیکن اَب مضمون لکھتے وقت اِن باتوں کے ساتھ یاد آیا کہ رسالہ اُن کی رائے کے احترام میں ویسے ہی طبع کرادینا چاہیے اگرچہ میری رائے اَب بھی وہی ہے کہ مبتدی کے لیے اِس کا ترجمہ مختصر تشریح تسہیل کے ساتھ ضروری ہے مگر کہنا یہ ہے کہ اُن دونوں حضرات کی بلندی علم اِسے سہل بتلا رہی تھی۔ حضرت مولانا کو علم ِ طب میں بھی عبور تھا۔ حضرت مولانا جیسے ظاہراً پاکیزہ تھے اُسی طرح دِل بھی صاف رکھتے تھے اِسی لیے گفتگو اَور تقریر میں وفورِ جذبات اَور رقت ِ قلبی وغیرہ کی کیفیت ہوجاتی تھی۔ طبیعت کی صفائی کی وجہ سے آپ کے لیے شاید یہ ممکن نہ تھا کہ کسی سے ناراض ہوں تو اُس سے اِس کا اِظہار نہ کریں، ظاہر وباطن یکساں تھا، معلوم ہوتا ہے بناوٹ کی نہ ضرورت تھی نہ قدرت۔ مولانا کا علمی تفوق جو ہمہ جہتی تھا بالخصوص حدیث پاک میں، پھر اِستغناء اَور قبولیت وھبیّہ دیکھتے ہوئے یہ گمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ آپ کو کسی اَور سے عقیدت مندانہ تعلق ہوگا۔ لیکن جو مولانا کے ذرا بھی قریب ہوگا اُسے علم ہوگا کہ اُنہیں ہر اُس شخص سے تعلق ہوجاتا تھا جس کے بارے میں اُنہیں معلوم ہو کہ وہ خدا کا صالح بندہ ہے اَور ہر اُس بزرگ سے عقیدت ہوتی تھی جو واقعی اُن کی نظر میں اہل اللہ ہو۔ اَور اُس سے ایسا معاملہ فرماتے تھے کہ جیسے اپنا بزرگ تسلیم کر لیا ہو، باطنی اِستفادہ فرما رہے ہوں یا بیعت ہوں۔ مولانا عبدا لغفور صاحب عباسی نقشبندی رحمہ اللہ مدینہ منورہ سے آتے تھے تو شروع شروع میں تو لاہور میں اِن کا قیام سنٹرل ہوٹل میں ہوتاتھا (جو لوہاری دروازہ کی طرف اَنار کلی کی آخری بلڈنگ ہے اَور مکی مسجد کے زیر دیوار ہے)۔ مولانا موصوف مسلم مسجد میں نماز اَدا کیا کرتے تھے اَور صرف سات آٹھ آدمی ساتھ ہوتے تھے۔ اُس وقت اَور اُس کے بعد اُن کے گرد ہجوم کثیر ہونے تک میں اُن سے ملتا رہا ہوں پھر مجمع زیادہ ہونے لگا اَور پھر بہت زیادہ ہونے لگا۔ اُس زمانے میں مولانا یوسف صاحب کی