ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2012 |
اكستان |
|
تمہارے شعر مامون دمشقی کے اَشعار سے اَچھے تھے۔ پھر اپنے قصائد میں سے مستحضر اَشعار سنائے۔ میں شاعر نہیں ہوں کبھی کبھار کوئی شعر بن جائے تو یہ شاعری نہیں۔ میں مولانا المرحوم کے حسن ِ اِلتفات واِنبساط کو قائم رکھنے کے لیے اپنے اُستاذِ محترم مولانا عبدالحق صاحب مدنی نور اللہ مرقدہ کے منتخب اَشعار سناتا رہا جن میں یہ اَشعار بھی تھے۔ یَا مَنْ تَبَاعَدَ عَنِّیْ غَیْرُ مُکْتَرِثٍ لٰکِنَّہ لِلضَّنِّیْ وَ السَّقَمِ اَوْصٰی بِیْ تَرَکْتَنِیْ مُسْتَھَامَ الْقَلْبِ ذَا حَرْقٍ اَخَا الْجَوِیِّ بَیْنَ بِلْبَالِ وَ اَوْصَاب اُرَاقِبُ النَّجْمَ فِیْ جَنْحِِ الدُّجٰی کَلْفًا کَاَنَّنِیْ رَاصِد لِّلنَّجْمِ اَوْصَابِیْ حضرت مولانا کا یہ ایک پہلو تھا جو گزرے ہوئے واقعات کے ذیل میں آگیا، ورنہ مولانا کو بفضل ِ خدا تمام علوم مستحضر تھے۔ منطق کی کتابوں کی عبارتیں بھی یاد تھیں۔ مختلف مجالس میں بہت سی باتیں سامنے آتی رہیں۔ آپ نے اپنے یہاں مدرسہ میں شاید غیرملکی طلبہ کی رعایت میں اِن علوم کی کتابیں نہیں رکھی ہیں۔ اَور غالبًا اِس طرف زیادہ توجہ رہی ہے کہ طلبہ علوم عالیہ میں زیادہ بصیرت حاصل کریں۔ اَور اُن کی توجہ...............اُمور کی طرف زیادہ ہو۔ غالبًا ٨ جون ١٩٧٤ء کے قریب کی بات ہے کہ حضرت والا اَور حضرت مولانا المفتی محمود مدظلہم دونوں ہی تشریف فرما تھے کہ میں نے منطق کی ایک کتاب کا ذکر کیا کہ وہ مجھے بہت پسند ہے۔ یہ کتاب مدینہ منورہ میں پھوپھی صاحبہ اُخت حضرت مولانا عبدالحق صاحب مدنی رحمة اللہ علیہما کے پاس مولانا کی الماری بھر کتابوں میں سے ایک تھی۔ یہ بو علی سینا کی لکھی ہوئی ہے اَور اُنہوں نے منطق کے تمام قواعد منظوم کردیے ہیں۔ اَشعار طلبہ کو آسانی سے یاد ہوجاتے ہیں یہ کتاب پڑھا کر یاد کرا دی جائے تو سارے قواعد یاد ہی رہیں گے۔ مگر میں چاہتاہوں کہ اَشعار کا ترجمہ اَور مختصر شرح اُردو میں آجائے۔