ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2012 |
اكستان |
|
مولانا اَنور شاہ صاحب رحمہ اللہ سے تلمذ، مناسبت ِکاملہ اَور قرب حاصل ہو گیا۔ آپ کا یہ تعلق عنداللہ مقبول ہوا جو آخر حیات میں قادیانیوں کے خلاف سیادت ِ تحریک کی شکل میں بھی سامنے آیا۔ آپ حضرت شاہ صاحب قدس سرہ کے طریقہ پرمطالعہ علوم کرتے رہے ایک مرتبہ فرمایا کہ ڈابھیل کے قیام میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ ایک ایک بات کی تحقیق کے لیے میں نے پانچ پانچ سو، ہزار ہزار، دو دو ہزار صفحات کا مطالعہ کیا۔سر سری نظر ڈال کر اگر کتاب دیکھی جائے تو بہت سے لوگ ایک ایک رات میں پانچ پانچ سو صفحوں کی کتاب دیکھ لیتے ہیں۔ لیکن اگر بغور و تعمق مطالعہ کیا جائے تو یہ بہت ہی مشکل کام بن جاتا ہے اَور مولانا کی مراد یہی تھی۔ میں نے مولانا کی بعض عربی خاص اَدیبانہ تحریرات دیکھی ہیں اُن میں بکثرت عربی کے ایسے محاورات اِستعمال کیے ہیں جن سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ لغت کی کتابوں میں سے یاد کیے گئے ہیں۔ والد ماجد رحمہ اللہ سے میں نے مقامات پڑھی تھی۔ اُنہیں فِقْہُ اللُّغَةْ یاد تھی اَور حافظہ ایسا قوی تھا کہ مطالعہ کے بغیر بھی اُسی طرح پڑھاتے تھے دیگر اِستعمالات اِس کے علاوہ تھے۔ اَور حضرت مولانا رحمة اللہ علیہ کی تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کو منجد وغیرہ کے محاورات اَزبر تھے یہ کبھی جمع فرمائے اَور یاد کیے ہوں گے۔ ذوقِ اَدب بہت اَعلیٰ تھا۔ ایک مرتبہ فرمایا کہ دیوبند میں مولانا میرک شاہ صاحب اَندرابی (کشمیری) اَور مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمة اللہ علیہما کا عربی اَشعار قصائد میں مقابلہ رہا کرتا تھا۔ میں نے دریافت کیا کہ اُن میں کون غالب رہتا تھا تو فرمایا کہ مفتی شفیع صاحب کے اَشعار اِن سے بہتر ہوتے تھے۔ خیرالمدارس ملتان میں وفاق المدارس العربیہ کے اِبتدائی سالوں میں ایک دفعہ علماء سے خطاب فرما رہے تھے کہ درمیان میں مجھے خطاب فرمایا۔ میں متوجہ تو تھا مگر یہ خیال نہ تھا کہ کیوں خطاب فرما رہے ہیں، میں نے قدرے دائیں بائیں دیکھا کہ شاید اِس نام کے کوئی اَور صاحب ہوں۔ اِس پر دوبارہ مجھے خطاب کیا اَور عربی کا ایک شعر سنایا۔ اِس کے بعد ایک نشست میں فرمایا کہ فلاں رسالے میں