ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2012 |
اكستان |
|
اَب سوچنے کا مقام ہے کہ اِس عقل کے کورے اَور متعصب یہودی یا عیسائی سائنسدان کو سکولوں، کالجوں، عدلیہ، فوج اَور دیگر قومی اِداروں کی سوچ پر کوئی فکرمندی نہیں ہوئی لیکن مدارس کے بارے میں اِس کی نیند حرام ہوگئی۔ اَصل بات یہ ہے کہ یہودو عیسائی ہمیشہ سے اِس کوشش میں رہے ہیں کہ مسلمانوں کی اِسلام سے وابستگی اِتنی کم کردی جائے کہ اِسلام اِن کی نظر میں ایک غیر اہم چیز ہو کر رہ جائے تاکہ اِن کی آنے والی نسلوں کو باآسانی اِسلام سے برگشتہ کر کے دیگر باطل مذاہب کی راہ پر چلا دیا جائے، اُن کی اِس دیرینہ خواہش کی راہ میں سب سے بڑی رُکاوٹ دینی مد ارس ہیں جو ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کو زندگی کے تمام شعبوں سے کسی نہ کسی درجہ میں وابستہ رکھے ہوئے ہیں جس کی برکت سے وہ اِسلام اَور مسلمانوں پر حملہ آور اَور اِن خونخوار دَرندوں کے چنگل سے بچے ہوئے ہیں۔ اگر خدا نخواستہ دینی مدارس نہیں رہتے تو مسلمانوں کی آنے والی نسلوں کے اِیمان میں تزلزل آجائے گا اَور اِن ہی خوفناک لمحات کے اِنتظار میں یہ تنگ نظر اَور متعصب یہودی، عیسائی، ہندو، سکھ، قادیانی اَور آغاخانی دَرندے منہ پھاڑے کھڑے ہوئے ہیں۔ لہٰذا ہر مسلمان کا بلکہ مسلمان حکومتوں کا اَولاً یہ مذہبی فریضہ ہے کہ وہ اِن اِسلام دُشمن قوتوں کی سازشوں سے پوری طرح با خبر بھی ر ہیں اَور اُن کا منہ توڑ جواب بھی دیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کے ناپاک عزائم میں اُن کو نامراد فر ما کر اہلِ حق کے مراکز کی حفاظت فرمائے، آمین۔