ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2012 |
اكستان |
|
ایشین ایج میں شائع ہونے والے آرٹیکل میں نیو کلیئر سائنسدان پرویز ہود نے اِس بات پر اپنی پریشانی کا اِظہار کیا ہے کہ بھارت مخالف تعلیمی اِداروں میں طالب ِعلموں کے ذہنوں میں بھارت سے نفرت اَور جہاد سے رغبت بھردی جاتی ہے۔ موصوف نے اپنے دعوی کی سچائی ثابت کرنے کے لیے اُن تعلیمی اِداروں کا نام ذکر نہیں کیا اِن کی باتوں سے یہ بات بھی واضح ہو رہی ہے کہ اپنے اِرد گرد کے عالمی حالات اَور ملکوں کی تاریخ سے یہ متعصب عیسائی یا یہودی سائنسدان بالکل بابلد ہیں اگر اِن کو تاریخ سے اَدنیٰ سی بھی آگاہی ہوتی تو ایسی بے بنیاد بات نہ کرتے ۔ اُن کی یہ بات بالکل ایسی ہے جیسے کوئی وَاویلا کرے کہ چین میں سوشلزم اَور رُوس میں کمیونزم کیوں متعارَف کرایا جا رہا ہے اَور مسجد حرام میں لوگ بیت اللہ کا طواف کیوں کرتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان بناتے وقت یہ نعرہ لگایا گیا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا ''لا الہ الا اللہ'' اِسی کے ساتھ ساتھ یہ سوچ بھی عام تھی کہ مسلمانوں کے لیے ایک ایسا ملک ہو جس میں وہ معاشی ،تجارتی، سیاسی اَور دیگر تمام معاملات میں ہندوؤں کی غلامی سے خلاصی پا کر آزادانہ زندگی گزار سکیں۔ جب پاکستان بن گیا تو اِس سوچ کو دوام دینے کے لیے ہندوستان کو دُشمن ملک قرار دیا گیا اَور ہر چھوٹے بڑے اسکولوں اَور کالجوں کی کتابوں میں اِس مضمون کو شامل ِ نصاب کر کے پڑھایا جا تارہا ہے حتی کہ بھارت دُشمنی ایک قومی سوچ بن گئی جبکہ پاکستان کے بڑے بڑے روز ناموں میں اِس نظریہ پر آئے دِن وسیع کالم شائع ہوتے رہے ہیں بالخصوص روزنامہ نوائے وقت نے تو اِس خدمت کو اَپنا اَوڑھنا بچھونا بنالیا ہے ۔جب پرویز مشرف کے ہوائی جہازکے کپتان کو نواز شریف حکومت کی طرف سے یہ آرڈر دیا گیا کہ جہاز کا رُخ موڑ کر اُس کو بھارت میں اُتار دیا جائے تو پاکستانی فوج اَور دیگر ذمہ دار ذرائع نے نواز شریف کے اِس اِقدام کی مذمت کی اَور اُن کو عار دِلاتے ہوئے یہی کہا گیا کہ '' اَگر فوج کے سالار ِ اعظم کا جہاز دُشمن ملک ہندوستان میں اُتار دیا جاتا تو پاکستان کے لیے دُنیا بھر میں کس قدر رُسوائی کی چیز ہوتی۔''