ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2012 |
اكستان |
|
(٥) ایک مرتبہ جمعہ کے دِن ایک تجارتی قافلہ ملک ِ شام سے آیا اُس وقت آنحضرت ۖ خطبہ پڑھ رہے تھے لوگ اِس قافلہ کی آمد سن کر خطبہ چھوڑ کر چلے گئے کیونکہ اُس وقت مدینہ میں غلہ کی ضرورت زیادہ تھی اِسی پر یہ آیت عتاب اُتری وَاِذَا رَاَوْ تِجَارَةً اَوْلَھْوَانِ انْفَضُّوْا اِلَیْھَا وَتَرَکُوْکَ قَائِمًا ١ مگر حضرت صدیق رضی اللہ عنہ اُن بارہ اَشخاص میں تھے جو مسجد سے نہیں ہٹے ۔ (٦) جب رسولِ خدا ۖ مرضِ وفات میں مبتلاء ہوئے تو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ پر خاص لطف وکرم فرمایا۔ وفات سے پانچ دِن پہلے خطبہ پڑھا اَور اُس میں حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل بیان فرمائے اَور حکم دیا کہ مسجد میں جن جن کے دروازے ہیں سب بند کر دیے جائیں سوائے اَبو بکر صدیق کے پھر اُن کو اَپنی جگہ پر اِمام ٢ نماز بنادیا جو کھلا ہوا اِشارہ اُن کی خلافت کا تھا۔ نیر اِسی بیماری میں آپ ۖ نے اِن کے لیے خلافت نامہ لکھوانے کو کاغذ وغیرہ طلب فرمایا مگر پھر کسی مصلحت ٣ سے اَپنا اِرادہ ترک کردیا۔ ١ تر جمہ : اَور جب یہ لوگ کوئی تجارت یا کھیل کی چیز دیکھتے ہیں تو اُس کی طرف چلے جاتے ہیں اَور آپ کو کھڑا ہوا چھوڑ دیتے ہیں اگر چہ اِس قسم کے عتاب معلمانہ دستاویز طعن نہیں بن سکتے مگر جن پر یہ عتاب نہ ہو، اُن کی فضیلت اِس معاملہ میں ظاہر ہوئی۔ ٢ حضرت صدیق ِ اَکبر رضی اللہ عنہ کو آخر وقت میں اِمام ِ نماز بنانے کی روایت بکثرت راویوں نے روایت کی ہے محدثین نے اِس کو متواتر لکھا ہے تواتر لفظی نہیں مگر تواتر معنوی تو یقینی ہے، اُس آخر وقت کے علاوہ بھی جب کبھی آنحضرت ۖ خود اِمامت نہ کر سکتے تو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ ہی کو اِمامت کا حکم دیتے۔ جب آپ ۖ قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرما گئے کہ نماز کا وقت آجائے تو اَبو بکر کو اِمام بنانا۔ غزوۂ تبوک میں لشکر کا جائزہ لینے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ ٣ غالبًا وہ مصلحت یہ ہو کہ رسولِ خدا ۖ اگر صدیق اَکبر رضی اللہ عنہ کو صراحةً خلیفہ بنا جاتے تو لوگ یہ سمجھتے کہ خلیفہ تقرر اُمت کے اِختیار میں نہیں ہے بلکہ رسول کا کام ہے اَور اِس اعتقاد ِ فاسد سے جو رَخنے اِسلام میں پڑتے اِس کا اَندازہ مذہب ِ رفض کے مسئلہ اِمامت سے ہو سکتا ہے۔