ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2012 |
اكستان |
|
قسم کی محفلیں ممنوع اَور ناجائز ہیں کیونکہ شریعت کا یہ قاعدہ بڑا مشہور ہے کہ ''فوائد حاصل کرنے سے نقصانات کا دُور کرنا مقدم ہے۔'' لہٰذا جو شخص جانتا ہے کہ کسی محفل ِمیلاد میں ایک بھی شرعی خرابی پائی جاتی ہے بایں ہمہ وہ اُس میں شرکت کرتا ہے تو وہ خدا کی نافرمانی کرنے والا اَور گناہ گار ہے اَگر فرض کرلیا جائے کہ اُس شخص نے اِس محفل میلاد میں خیر کے کام بھی کیے تو بھی یہ خیر اُس شر کا تدارک نہیں کرسکتا جو اِس میں پایا جاتا ہے۔ کیا آپ یہ نہیں دیکھتے کہ حضور ۖ نے خیر اَور بھلائی کے نفلی کاموں میں تو بقدرِ اِستطاعت اَور جتنا آسانی سے ہوسکے اُتنا ہی کام کرنے کاحکم دیا ہے لیکن اِس کے برعکس برائی کی تمام قسموں اَور تمام صورتوں سے مکمل بچنے کا حکم دیا ہے۔ اِس سے معلوم ہوگیا کہ برائی گو تھوڑی ہو اُس کے کرنے کی اِجازت نہیں دی جاسکتی اَور اِس کے برعکس ثواب کا (نفلی) کام جتنا ہوسکے اُتنا کرلے۔ اَور دُوسری قسم کی محفلِ میلاد جس میں کوئی برائی اَور شرعی خرابی نہ پائی جاتی ہو بلاشبہ سنت ہے اَور اُن اَحادیث کے ذیل میں آتی ہے جو ذکر کی فضیلت کے سلسلہ میں وارِد ہوئی ہیں مثلاً حضور ۖ نے فرمایا ''جو قوم اللہ کا ذکر کرنے کے لیے بیٹھتی ہے فرشتے ا'ن کو ڈھانپ لیتے ہیں اَور رحمت ِاِلٰہی اُن کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے اَور سکینہ (سکون و اِطمینان وغیرہ) اُن پر نازل ہوتا ہے اَور اللہ تعالیٰ فرشتوں میں ایسے لوگوں کا ذکر کرتے ہیں۔''( فتاویٰ حدیثیہ ص ١٢٩) شیخ اِبن ِحجر کی اِس عبارت سے واضح طور پر معلوم ہوگیا کہ وہ مروجہ محفلِ میلاد کو قطعاً جائز قرار نہیں دیتے ہیں بلکہ وہ فرماتے ہیں کہ ذکرِ ولادت جس محفل میں ہوتا ہے وہ دو طرح کی ہوتی ہیں۔ (١) وہ محفل جس میں ناجائز اُمور پائے جاتے ہیں ایسی محفل تو قطعاً ناجائز ہے اَور ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں کہ اَکثر محفلِ میلاد اِسی زُمرے میں شامل ہیں کیونکہ وہ ناجائز اُمور پر مشتمل ہوتی ہیں۔