ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2012 |
اكستان |
|
رمضان المبارک میں ثلث لیل گزرنے پر تراویح کے لیے کھڑے ہو جاتے اَور رات کے ایک بجے تک یہی سلسلہ جاری رہتا تھا، دو بجے سے تہجد کی نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے اَور سحری سے ایک گھنٹہ پیشتر ختم فرما دیتے تھے۔ ظہر کی نماز کے بعد وہی مجلس رہتی تھی جیسا کہ دیو بند میں یعنی سالکین کے حالات سننا اَور اُن کی تربیت فرمانا۔ عصر کی نماز سے لے کر مغرب کی نماز تک قرآن شریف کا دَورہ ہوتا تھا جس میں آپ حاضرین پر خصوصی توجہات بھی ڈالتے تھے اِس مجلس کے اَنوار و برکات سے وہی لوگ خوب واقف ہیں جو اُن میں شریک رہے۔ آسام کے قیام میں ایک جدید مجلس تراویح اَور تہجد کے درمیان اَور ہوتی تھی کہ جس میں حضرت مہمانوں کے سامنے آسامی پھل پیش کرتے اَور قدرے خود بھی تناول فرماتے تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت مولانا محمدجلیل صاحب نے حضرت سے عرض کیا کہ حضرت آپ اِس مجلس کو موقوف فرمادیں اَور تھوڑی دیر آرام فرما لیا کریں، حضرت نے فرمایا یہ حضرات اِتنی دُور دَراز سے آتے ہیں یہی اِن کی ملاقات کا وقت ہے میں اپنے آرام کی خاطر کس طرح اِس مجلس کو موقوف کردُوں، نہیں ! اِس وقت کی مجلس بند نہیں کی جائے گی۔ مدینہ منورہ کے معمولات میں اِتنا اِضافہ اَور ہوتا تھا کہ صبح کی نماز اَور عشاء کی نماز کے بعد آپ حضور ۖ کے مزارِ مقدس پر تشریف لے جاتے اَور پون گھنٹہ سے لے کر ڈیڑھ گھنٹہ تک کھڑے ہو کر درُود و سلام پڑھتے تھے۔ لوگوں کا بیان ہے حضرت باوجود ضعف کے ایسے کھڑے رہتے تھے کہ پیروں کو جنبش تک نہیں ہوتی تھی جبکہ بڑے بڑے نوجوان تھک کر بیٹھ جاتے تھے۔ اِس زندگی کا نام'' تصوف'' ہے۔ مناسب ہے کہ اِس جگہ پر تصوف کی وہ تعریفات جو اِبتدائے عنوان میں پیش کر چکا ہوں مکرر ملاحظہ فرمائی جائیں تو اِنشاء اللہ تصوف کی حقیقت اَور حضرت کا مقام بخوبی واضح ہوجائے گا۔ دوستو! تصوف وہ نہیں جس نے آج ذہنوں میں جگہ پکڑ لی ہے بلکہ سلوک اَور تصوف یہ ہے۔ کاش ! راقم الحروف کو اِس قسم کا تھوڑا سا تصوف حاصل ہوجائے، اَب تک تو محرومی ہے شاید اللہ تعالیٰ آئندہ اپنا فضل فرمائے، آمین ۔ وَلَیْسَ ذَالِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ۔ (جاری ہے)