ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2012 |
اكستان |
|
کے قدم مبارک پر کھڑے کھڑے وَرم آجاتا، ذکر اللہ سے اِتنا اُنس کہ یَذْکُرُاللّٰہَ فِیْ کُلِّ حِیْنٍ ہر وقت ذکر اللہ کرتے رہتے حتی کہ سونے کی حالت میں بھی ذکر اللہ کرتے رہتے تھے اِرشادفرماتے ہیں : تَنَامُ عَیْنَایَ وَلاَ یَنَامُ قَلْبِیْ۔ میری آنکھیں سوتی ہیں دِل بیدار رہتا ہے۔ اَپنے معمولات پر حضرت شیخ الاسلام بھی نہایت سختی سے پابند تھے ۔جماعت کا اِس قدر شوق کہ سفر میں ،حضر میں، جلسہ کے اسٹیج پر ہوں یا ریلوے پلیٹ فارم پر، نماز کا وقت آیا اَور جماعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں موجود، مرض الوفات میں معالجین نے باہر نکلنے کے لیے منع کر دیا تھا لیکن پھر بھی مہمان خانہ میں جماعت سے نماز اَدا فرماتے تھے۔ ایک دِن عیادت کے لیے حضرت مولانا فخرا لدین صاحب اَور حضرت مولانا قاری اَصغر علی صاحب اَندر تشریف لے گئے۔ حضرت نے فرمایا دیکھیے میری جماعتیں فوت ہو رہی ہیں اَور نمازیں تیمم سے اَدا کرتا ہوں اَور لوگ میرے بارے میں کیا کچھ حسن ِ ظن رکھتے ہیں اَور یہ فر ماکر اِتنا روئے کہ ہچکی بندھ گئی اَور تمام جسم خوف ِ خدا وندی سے تھر تھرانے لگا۔ آپ کے اہم اَور خاص معمولات میں آخر شب میں صلوة ِتہجد اَور اِلحاح وزَاری ہے۔ جب تک آپ حیات رہے اِس معمول میں فرق نہیں آیا۔ سفر میں، حضرمیں، جیل میں، مکان پر ہر حالت میں اِس معمول پر نہایت سختی سے پابند رہے، چنانچہ ہزار ہا مرتبہ ایسا ہوا کہ رات کو دو بجے تک آپ کی تقریر کا سلسلہ جاری رہتا تمام لوگ بستروں کا رُخ کرتے اَور یہ اللہ کا پیارا بندہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوجاتا۔ قیام ِ دیوبند میں درسِ حدیث سے بارہ بجے فارغ ہونے کے بعد جب مکان تشریف لاتے تو ایک بجے تک کتاب کا مطالعہ فرماتے تھے تھوڑی دیر کے لیے کمر سیدھی کی اَور پھر دو تین بجے اُٹھ کھڑے ہوتے تھے لوگوں کی حالت ِبیداری میں اپنے ضبط ِاَوقات میں دُشواری پیش آتی ہے لیکن آپ حالت ِنوم میں بھی اِتنے قادِر تھے کہ نیند کو اپنے قبضے میں کر لیا تھا جب چاہا سوگئے اَور جب چاہا بیدار ہوگئے۔ مہتمم صاحب فرماتے ہیں کہ دیوبند میں ایک صاحب کے یہاں دعوت تھی میں بھی اُس میں