ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2012 |
اكستان |
ہوتا ہے اُس کا تو پنجہ بھی نرم نہیں ہے بلی کا تو گدّے جیسا ہوتا ہے مگر وہ(گھوڑی) اَپنے بچے پر پاؤں جو رکھتی ہے وہ بڑی نرمی سے رکھتی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اَپنی صفات میں سے حصہ تو بانٹا ہے سب جگہ مگر یہ مطلب تو نہیں کہ جتنا خدا رحیم ہے اِتنا کوئی اَور ہو گیا یہ نہیں ہو سکتا اللہ تعالیٰ کی رحمت کی جو صفت ہے وہ صفت سب سے بلند ہے اُس میں کوئی شریک نہیں ماں باپ ہیں اَولاد کو کھلاتے ہیں پلاتے ہیں منہ میں لقمے دیتے ہیں اَور قرآنِ پاک میں آیا ہے رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا اِن دونوں نے مجھے چھوٹے سے کو تربیت دی ہے پالا ہے دُعا کرے کہ اللہ توماں اَور باپ پر رحمت فرما جیسے اِنہوں نے مجھے بچپن میں پالا ہے رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا توایسے کہ ذرا سی پھانس بھی چبھ جائے تو ماں باپ بے چین ہوجاتے ہیں اَور بڑا خیال رکھتے ہیں سردی کا گرمی کا راتوںکو اُٹھ کر دیکھتے ہیں کہ ٹھنڈ تو نہیں لگ رہی وغیرہ وغیرہ تو دُعا جو بتائی گئی ہے اَولاد کو ماں باپ کے لیے وہ یہ دُعا بتائی کہ جیسے اِنہوں نے میرے ساتھ شفقت کی ویسے تو اِن کے ساتھ شفقت فرمارحم فرما اِن پر۔ تو یہاں'' رب'' کا لفظ بولا گیا تربیت کا لفظ بولا جاتا ہے لیکن'' رب'' نہیں بن گیا یہ ،رب تو وہی رہا رَبُّ الْعَالَمِیْنَ جو اُس کی صفت ہے اُس میں کوئی شریک نہیں ہے ہاں جو اُس نے بانٹ دی ہے جتنا حصہ دے دیا ہے اُس کا اِنکار بھی نہیں بتا یا گیا۔ تو مشرکین کو اِیمان بتلایا گیا ہے اَور مشرک تقریبًا سب ہی ہو گئے کوئی کم کوئی زیادہ، یہودیوں نے حضرت عزیر علیہ السلام کو مانا خدا کا بیٹا تو عیسائیوں نے اُن سے آگے بڑھ کر حضرت مریم علیھا السلام کو بھی بیوی مان لیا لیکن یہ دونوں کے دونوں یہ کہتے تھے کہ یہ دونوں مل کر ایک ہی ہیں، ہیں ایک ہی اَور اِسی طرح سے تینوں کو ملا کر عیسائی کہتے ہیں یہ ایک ہی ہیں اَب اُن سے مناظرے بھی بتیرے ہوتے رہتے ہیں کہ بھائی تین نہ کہو یا ایک نہ کہو یہ کیا بات کہ ایک بھی ہے اَور تین بھی ہیں وغیرہ وغیرہ بہت قسم کے مناظرے بڑے لمبے لمبے بڑے معقول۔