ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2012 |
اكستان |
|
بے چین ہوتی ہے بے تاب ہوتی ہے لا کے وہاں سے اَور اُس کو چُگا دیتی ہے اُس کے منہ میں دیتی ہے کیونکہ بچہ چُگنے کے قابل نہیں جب وہ بڑا ہوجاتا ہے اُڑنے لگتا ہے پھر اِطمینان ہوجاتا ہے، بلی ہے اُس کے بچوں کی آنکھیں ہی نہیں کھلتی ہاں وہ دُودھ پینا ضرور جانتا ہے وجود میں آگئے ہیں تو جتنی ضرورت ہے اُتنا شعور اُن کو دے دیا گیا ہے ضرورت اِس چیز کی ہے کہ بھوک لگے تو کھا لو پی لو تو بس وہ ماں کا دُودھ پینا جانتے ہیں اَور آنکھیں بند اَور ماں اُنہیں چاٹتی رہتی ہے اَور کسی کو پاس نہیں آنے دیتی کہ میرے بچوں کو نقصان نہ پہنچادے کوئی بلا بلی ،سب سے لڑتی ہے بڑی حفاظت کی جگہ جا کر بچے دیتی ہے چڑیاں بھی بڑی حفاظت کی جگہ جہاں بلی نہ پہنچ سکتی ہو کوئی اَور جانور اُوپر سے حملہ آور ہونے والا نہ آسکے (وہاں اَنڈے بچے دیتیں ہیں)۔ ایک صحابی نے چڑیا کے بچے پکڑے تو ماں اُن کی پیچھے پیچھے آگئی وہ رسول اللہ ۖ کی خدمت میں بچے لے کر آگئے وہ بھی پیچھے پیچھے تورسول اللہ ۖ نے پسند نہیں فرمایا ،اُن کو فرمایا کہ اِنہیں وہیں چھوڑ کر آؤ وہیں رکھ کر آؤ۔ تو اللہ تعالیٰ نے رحمت تقسیم کی ہے ماں بے چین ہو گئی اُن کے ساتھ ساتھ پیچھے پیچھے ،ورنہ چڑیا آدمی کے پیچھے پیچھے کہاں جاتی ہے وہ تو بچوں کے پیچھے پیچھے آئی تھی وہ اپنی جھولی میں یا کپڑے میں ڈال کر لے آئے تھے، اُسے نظر آرہا تھا کہ یہ ہیں میرے بچے ۔ اَور آقائے نامدار ۖ کا رحمت للعالمین ہونا بھی معلوم ہوتا ہے یہ نہیں کہ آپ اِنسانوں ہی پر رحمت فرماتے ہیں بلکہ جانوروں پر بھی کیونکہ اِرشاد فرمایا کہ وہیں لے جاؤ وہیں رکھ کر آؤ اِسے، یہ اِس کی ماں ہے بے تاب ہے یہ بھی نہیں فرمایا کہ سب کو ذبح کر لو حالانکہ حلال ہیں ناجائز تو نہیں مگر نہیں فرمایا، یہی فرمایا جو اُس وقت کے مناسب ترین چیز تھی اَور جس میں رحمت اَور شفقت شامل تھی کہ اِنہیں وہیں پہنچا آؤ تو حق تعالیٰ نے رحمت تقسیم فرمائی ہے سب مخلوقات میں اَور جانوروں میں۔ رسول اللہ ۖ نے مثال کے طور پر گھوڑے کا ذکر فرمایا ہے اَور گھوڑے کا پاؤں بھی سخت