ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2008 |
اكستان |
|
بُری باتوں کو بُرا کہتا ہے ظالم بھی کہتا ہے کہ ظلم بُری بات ہے اگرچہ کرتا ہے خود۔ بہرحال اِس میں یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر رحمت جب ہوجائے تو وہ شیطانی وَسوسے جو پھینکتا ہے شیطان ختم ہوتے چلے جاتے ہیں اور اُن کا اَثر لیتی نہیں ہے اُس کی طبیعت اور نیکی کی طرف خود بخود چلنے لگتی ہے طبیعت۔ اور جہاں رسول اللہ ۖ یا اللہ تعالیٰ کے کلام میں '' لَعَلَّ '' کا لفظ آیا ہے کہ شاید یہ ہو شاید یہ ہو یا ''اِنْشَائَ اللّٰہُ '' ایسے ہوگا حدیث شریف میں کہیں آگیا تو یہ یقینی شمار ہوتا ہے یہ شک کے معنٰی میں نہیں ہوں گے کہ شاید ایسے ہو شاید ایسے ہو یہ شک کے لیے نہیں ہے بلکہ یقین کے لیے ہے اور یہاں بھی اِنْشَائَ اللّٰہُ آیا ہے یہ بھی تبرک کے لیے ہے تردُّد کے لیے نہیں ہے لَایَدْخُلُ النَّارَ اِنْشَائَ اللّٰہُ مِنْ اَصْحَابِ شَجَرَةٍ اَحَد اَلَّذِیْنَ بَایَعُوْا تَحْتَھَا یہ مسلم شریف کی روایت ہے۔ اللہ تعالیٰ آخرت میں اپنے فضل سے ہمیں اِن حضرات کا ساتھ نصیب فرمائے، آمین۔ اختتامی دُعا … … بقیہ : عورتوں کے رُوحانی امراض یہ منجملہ ضروریات ِ دین کے ہے۔ کیونکہ بناؤ سنگھار کرکے جانے کا سبب محض تکبر ہے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ میں بڑا ہوں اِس عادت کو بدلیے کیونکہ بڑا بننے کی عادت بُری ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا وہ جنت میں نہ جائے گا۔ (ملفوظاتِ اشرفیہ) اور ایک جز معاشرت کا یہ ہے کہ عورتیں سلام نہیں کرتیں اور جو کرتی ہیں وہ بالکل شریعت کے خلاف کرتی ہیں۔ بعض عورتیں تو صرف سلام کہتی ہیں اِس قدر تخفیف کہ چار حرف بھی زبان سے نہ نکلیں اور جواب دینے والی سارے خاندان کی فہرست گنوادے گی کہ بھائی جیتا رہے اور بیٹا زندہ رہے اور شوہر خوش رہے لیکن ایک لفظ وعلیکم السلام نہ کہا جائے گا۔ (تفصیل التوبہ) ۔(جاری ہے)