ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2007 |
اكستان |
یہاں یہ بھی سمجھ لینا ضروری ہے کہ امام و خلیفہ کے مقابلہ میں مجتہد مخطی کو شاہ صاحب نے ''باغی'' لکھا ہے۔ اُنہوں نے بغاوت کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ ایک تو بالکل باطل ہے، دُوسری یہ ہے : اگر آں تاویل مجتہد فیہ است نہ قطعی البطلان آں قوم بغاة باشند و در زمانِ اول حکم ایں قوم حکم مجتہد مخطی بود اِنْ اَخْطَأَ فَلَہ اَجْر ۔ (ازالة الخفاء ج ١ ص٧) ''اگر خروج کرنے والے حضرات کی تاویل میں اجتہاد کی گنجائش ہو کہ وہ قطعی باطل نہ ہو تو یہ لوگ باغی ہوں گے اور ابتداء اسلام میں اِن حضرات کا حکم مجتہد مخطی کا تھا اِنْ اَخْطَأَ فَلَہ اَجْر اگر غلطی ہوئی ہے تو (بھی) اکہرا اَجر ہے۔'' عباسی صاحب اپنے اِس مضمون میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ جملہ کہ ''اِن کی لڑائیاں طلب ِخلافت کے لیے تھیں'' لکھ کر قارئین کے ذہن کو اِس طرف موڑ کر لے جانا چاہتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ' خلیفہ نہ ہوئے تھے ہونا چاہتے تھے اور اِسی حال میں آپ کی شہادت ہوگئی حالانکہ حضرت شاہ صاحب نے جابجا آپ کو خلیفۂ رابع ہی لکھا ہے۔ اور آپ پڑھ ہی چکے ہیں کہ اُنہوں نے حضرت علی کے مقابل حضرات کو مجتہد مخطی معذور اور باغی لکھا ہے۔ اگر اِن کی نظر میں حضرت علی خلیفہ نہ تھے تو اُن کے مقابل (ایک خاص قسم کے معذور) باغی کیسے بنے؟ حضرت شاہ صاحب نے ازالة الخفاء میں خلیفۂ سوم سیّدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے اَحوالِ طیبہ تقریبًا اکتیس صفحات میں تحریر کیے ہیں اور خلیفۂ رابع سیّدنا علی کرم اللہ وجہہ' کے اَحوالِ مبارکہ تقریبًا بتیس صفحات میں ہیں۔ عنوان میں بھی ایک ہی جیسے الفاظ استعمال فرمائے ہیں : (١) اَمَّا مَاٰثِرُ اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰٰی عَنْہُ ۔ ( ص ٢٢٠ ) (٢) اَمَّا مَاٰثِرُ اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَاِمَامِ الْاَشْجَعِیْنَ اَسَدِ اللّٰہِ الْغَالِبِ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ( ص ٢٥١) اور قرة العینین میں بحوالہ امام نووی تحریر فرماتے ہیں : وَاَمَّا عَلِیّ فَخِلَافَتُہُ صَحِیْحَة بِالْاِجْمَاعِ وَکَانَ ھُوَ الْخَلِیْفَةُ فِیْ وَقْتِہ وَلَا