ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2007 |
اكستان |
|
نہیں ہوسکتا۔ تو پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اِذًا لَّایُغْلَقُ اَبَدًا اِس کا مطلب تو یہ ہے کہ پھر کبھی بھی وہ بند نہیں ہوگا، وہ کُھل گیا دروازہ تو کُھلا ہی رہے گا، فتنے پیدا ہوتے ہی رہیں گے، یہ نہیں ہوگا کہ کبھی زور لگاکر دروازہ بند کرلیں اور فتنوں سے بالکل نجات ہوجائے، ایسی شکل نہیں ہوگی پھر ہوا بھی اِسی طرح سے۔ اور یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اور فتنوں کے درمیان دروازہ ہے، تو اِس پر شاگردوں نے پوچھا یا پوچھنا چاہا تو کہتے ہیں کہ ہمیں اُستاد کا حجاب اور لحاظ مانع آگیا تو ہم نے اپنے ایک بڑے جلیل القدر ساتھی سے کہا کہ آپ پوچھیں،حضرت ِ مسروق اُن کا نام تھا۔ مسروق جو ہیں تابعی ہیں مگر علامہ ہیں بہت بڑے۔ تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ اِن کے علمی ذوق اور وسعت ِ علم کی وجہ سے جو سوال یہ کرتے تھے اُس کا جواب دیا کرتے تھے۔ تو اُنہوں نے پوچھااُن سے، تو اِنہوں نے کہا میں نے کوئی ویسے ہی باطل بات نہیں سنائی تھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بلکہ بالکل صحیح بات سنائی تھی، ہونا ایسے ہی تھا، کہنے لگے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سمجھ گئے تھے اور دروازے سے مراد خود اُن کی ذات تھی، کہ جب تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اُمت میں وجود ہے کوئی فتنہ نہیں پیدا ہوگا۔ بڑا عجیب اور بڑا بابرکت وجود تھا کہ فتنے پیدا ہی نہیں ہونے پائے، فتنے ہی ڈرتے رہے۔ جتنے فتنہ پیدا کرنے والے لوگ تھے ہمت ہی نہیں کرسکے۔ حضرت عمر کے بعد حضرت عثمان کے دَور میں فتنے شروع ہوئے : ہاں اُن کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دَور میں چھ سال گزر نے کے بعد پھر اُبھرنے شروع ہوئے اور اِتنے اُبھرے اِتنے اُبھرے کہ اُنہیں شہید کردیا۔ اور اتنے زور پر تھے کہ اگلی خلافت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وہ مشکل ہوگئی اور طرح طرح کی چیزیں اُن پر پیش آئیں۔ اب حضرتِ حذیفہ رضی اللہ عنہ پھر بغداد آگئے، پہلے اس علاقہ کو مدائن کہتے تھے پھر مدائن کے علاقے میں ایک شہر آباد ہوگیا اُس کا نام بغداد ہوگیا تو ایک کتاب ہے ''تاریخ ِخطیب ِبغدادی''، تو خطیب بغدادی نے ہر اُس آدمی کا ذکر کیا ہے کہ جو بغداد میں آیا ہو چاہے وہ رہا ہو وہاں یا گزرا ہو وہاںسے، ایک آدھ دن قیام کیا ہو، بس تاریخ میں نام آگیا کہ وہ بھی وہاں آیا ہے اُس کا بھی نام اور حال ذکر کردیا۔ صحابۂ کرام اور ائمہ کی بغداد آمد و رفت : امامِ اعظم رحمة اللہ علیہ وہاں قید رہے ہیں، وہیں وفات ہوئی ہے، وہیں مزار ہے۔ تو اِسی مناسبت