ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2007 |
اكستان |
|
سے اُن کا بھی ذکر کیا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھی ذکر کیا ہے، کیونکہ وہ بصرہ سے جب صِفین تشریف لے گئے ہیں تو اُس وقت اِدھر مدائن کے علاقے سے گزرے اِس لیے اُن کا بھی ذکرآگیا، اُن کے ساتھ کون کون صحابۂ کرام تھے اُن کا ذکر بھی آگیا۔ ان علاقوں کی طرف فتوحات ہوئیں تھیں، فتوحات ہوئیں تو پھر بعض لوگوں کو بعض علاقے پسند آئے یا بعض لوگوں کو بعض علاقوں میں زمینیں ملیں۔ جب زمینیں ملیں تو اُنہوں نے پھر قیام وہیں اختیار کرلیا کیونکہ گزرِ اَوقات کے لیے اُن کو اُس کی دیکھ بھال کرنی ہوتی تھی تو وہ وہیں رہ پڑتے۔ اِس طرح حضرتِ حذیفہ رضی اللہ عنہ بھی یہاں رہے۔ ایک علاقہ تھا اِدھر جہاں یہ اب لڑائی ہورہی ہے۔ ١ حضرتِ حسن و حسین اور جہاد : اِس میں حضرتِ حسن، حضرتِ حسین رضی اللہ عنہما بھی جہاد میں تھے، تواِنہوں نے یہ علاقہ فتح کیا، اُسی علاقے کو حضرتِ حسن رضی اللہ عنہ نے جب حضرتِ معاویہ سے صلح کی ہے تو اپنے نام رکھا ہے کہ اُس کی آمدنی جو ہے وہ میں لوں گا،تووہ علاقہ اِن کے نام رہا ہے، حضرت معاویہ نے اُسے تسلیم کیا۔ تو جو علاقہ جہاد میں صحابۂ کرام یا مجاہدین نے حاصل کیا تھا اُن جگہوں پر اُن کو زمینیں ملی تھیں تو وہ وہیں رہتے تھے اور اِجازت دی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہ اگر آپس میں زمینوں کا تبادلہ کرنا چاہیں تو میری طرف سے اجازت ہے۔ اُس تبادلے کی تصدیق گویا حکومت کردیتی ہے کہ ٹھیک ہے یہ الاٹمنٹ اِدھر کے بجائے اُدھر، اُدھر کی بجائے اِدھر اِن کی ہوجائے گی۔ تو اِس طرح بھی بہت سے لوگوں نے سوادِ عراق میں جگہ لی۔ سوادِ عراق سے مراد : سوادِ عراق کا مطلب ہے کہ دریا کے کنارے کنارے جو حصہ ہے وہ بڑا شاداب ہے، تو سواد کہتے ہیں سیاہی کو، تو شاداب علاقہ جو ہوتا ہے اُسے بھی سب سیاہی کہتے ہیں، کیونکہ اُس میں سایہ ہوتا ہے بہت زیادہ، تو اُس کو وہ سواد کہنے لگے۔ توسوادِ عراق میں جو سرسبز اور شاداب حصہ تھا دریائوں کے کنارے کنارے آباد، اُس میں بہت سے لوگوں نے شام کی زمینوں سے اور کسی نے کہیں اور کی زمینوں سے تبادلے کیے۔ حضرت ِحذیفہ کی دمِ عثمان سے براء ت : حضرت ِحذیفہ رضی اللہ عنہ یہاں رہنے لگے، اب جب حضرت عثمان شہید ہوئے ہیں اُس زمانے ١ غالبًا عراق ایران کی لڑائی اور عبّادان کے علاقے مراد ہیںإ