ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2007 |
اكستان |
|
اُس کی حکومت ٦٩٤ ھ سے قائم ہوئی اور شوال ٧٠٣ ھ میں اُس کی وفات کے بعد خدا بندہ حاکم اعلیٰ ہوگیا۔ وہ کچھ عرصہ سنی رہا پھر ابن مطہر سے متاثر ہوکر شیعہ ہوگیا، وہ ابن مطہر کو سفر میں بھی ساتھ رکھتا تھا۔ خدا بندہ نے حکم نامہ جاری کیا کہ خطبات میں ائمۂ اثنا عشرہ ١ کے نام لیے جائیں۔ شاہراہوں کے نام اِن ہی کے ناموں پر رکھے جائیں۔ مساجد کی چہاردیواری پر اور جہاں جہاں لوگ زیادہ ہوتے ہوں وہاں ائمۂ اثنا عشرہ کے نام لکھے جائیں۔ ابن ِ تیمیہ کو اِس کا جتنا بھی دُکھ ہو کم تھا۔ اُنہوں نے اِس کی کتاب کا نام لیے بغیر اِس کا اور اُس دَور کے شیعوں کے مضامین کا جگہ جگہ قَالَ الرَّافِضِیُّ (رافضی نے یہ کہا) لکھ کر اُس کا رَد کیا ہے۔ ایسے موقع پر ظاہر ہے کہ انہیں مناقب خلفاء ثلٰثہ ہی کثرت سے ذکر کرنے چاہیے تھے۔ وہ انہوں نے کیے ہیں اور رافضی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ' کی جو جھوٹی تعریف کی تھی اُسے غلط ثابت کیا ہے۔ موقع محل کا تقاضا تو یہ تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مناقب سے سکوت کیا جائے۔ لیکن اُنہوں نے مسلک اہل ِ سنت کے مطابق چلتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھی ذکر کیا ہے اور اِنہیں جا بجا خلیفۂ رابع ہی لکھا ہے۔ بالکل ایسے ہی حالات زوالِ سلطنت ِمغلیہ کے وقت ہندوستان میں ہوگئے تھے۔ وزراء کا حکم چلتا تھا اور بادشاہ محض نام کا ہوتا تھا۔ اُس دَور میں حضرت شاہ صاحب نے ''قرة العینین'' لکھی پھر ازالة الخفاء لکھی۔ وجہ تالیف کا ذکر کرتے ہوئے وہ تحریر فرماتے ہیں : باید دانست کہ مذہب ِ حق اشاعرہ شکر اللہ مساعیہم بمتابعت صحابہ و تابعین بآن رفتہ اند تفضیل ابوبکر صدیق و عمر فاروق ست بر غیر ایشاں از صحابہ چہ علی مرتضی و چہ حسنین رضی اللہ عنہم اجمعین۔ واز عجائب اُمور آں ست کہ ایں مسئلہ درزمانِ سلف از اجلٰی بدیہیات بود کہ ہیچ عاقل دراں شک نمی کرد ا لاقومے از مبتدعاں کہ تتبع آثار صحابہ و تابعین شیمہ ایشاں نباشد۔ الاٰن از اخفٰی نظریات گشت کہ جز بہ تتبع بلیغ و استحضار جملہ کثیرہ از سنن وجز بفکر ِدُرست و اعمال آراء قویہ بفہم آں نتواں رسید و سببش درآمدن بسیاری از علوم مستحدثہ است در شریعت و شدت رواج آنہا۔ (تمہید نسخہ قلمی قرة العینین ص٢ حاشیہ ٢) ١ بارہ امام