ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2007 |
اكستان |
|
ملفوظات شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی ( مرتب : حضرت مولانا ابو الحسن صاحب بارہ بنکوی ) مسائل ِ علمیہ : ٭ خواہ کیسے ہی تقوی پر انسان ہو اور کیسے ہی اعمالِ صالحہ اور کشف و کرامات کا مظہر ہو۔ کسی کے متعلق ولایت ِحقیقت کا فتوی نہ عامی دے سکتا ہے نہ کوئی ولی دے سکتا ہے جب تک کہ خاتمہ کا علم نہ ہوجائے اور یہ مخصوص بعلمِ اللہ ہے یا وحی سے پیغمبر کو علم کرادیا جاتا ہے۔ ٭ یہ روایت (خَلَقَ اللّٰہُ آدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہ) بہت قوی ہے بخاری شریف کی روایت ہے مگر معلوم ہے کہ حسب ِ قواعد ِعربیہ ضمیر کو اَقرب مراجع کی طرف لوٹانا چاہیے اور وہ لفظ ِآدم ہے جس کے معنی یہ ہوئے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو اُن کی صورت پر پیدا کیا۔ ایسا نہیں ہوا جیسا کہ عام آدمیوں میں ہورہا ہے۔ سورۂ حج میں ہے یَااَیُّھَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ (الاٰیة) اے لوگو ! اگر تم کو دھوکا ہے جی اُٹھنے میں تو ہم نے بنایا تم کو مٹی سے پھر قطرے سے پھر جمے ہوئے خون سے پھر گوشت کی بوٹی نقشہ بنی ہوئی ۔ الحاصل تمام انسانوں کی خلقت تدریجی ہے مگر حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت دفعی ہے۔ اس بناء پر روایت موجود میں بعد میں فرمایا ہے طُوْلُہ سِتُّوْنَ ذِرَاعًا (الحدیث : دیکھو بخاری شریف نصف ثانی) اب اِس تقریر پر کوئی اعتراض وَارد نہیں ہوسکتا۔ ٭ صورتہ کی ضمیر حضرت آدم علیہ السلام ہی کی طرف راجع ہو اور مراد اُن کی صورت ِرُوحانیہ ہو، یعنی حضرت آدم علیہ السلام کو جسمانی اور مادی حیثیت ایسی ہی دی گئی جیسی اُن کو رُوحانی صورت عطا کی گئی تھی۔ تفصیل اِس کی یہ ہے کہ انسانی اَرواح بھی واقع میں مرکب ہیں۔ بسیط وہ تسمہ یعنی رُوحِ حیوانی، نفس ناطقہ رُوح ملکوتی سے مرکب ہے اور اِس میں مادہ شیطانی اور مادہ ملکی وغیرہ بھی رکھا گیا ہے۔ اِس میں عالم علوی کی تمام موجودات کا عنصر اِسی طرح رکھا ہوا ہے جس طرح اُس کے جسم میں عالم سفلی کے تمام مواد( خاک، نار،