ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2007 |
اكستان |
اگر یوں کہا جائے کہ میں نے تجھ سے اِتنے دن یااِتنی مدت کے لئے نکاح کیا تو یہ'' نکاح موقت'' کہلاتا ہے اور اگر بجائے نکاح کے متعہ یا اُس سے مشتق کوئی لفظ بولا مثلاً تمتع یا استمتاع کا لفظ استعمال کیا تو یہ ''متعہ ''کہلاتا ہے ۔لیکن حقیقت دونوں کی ایک ہے ۔ جاہل عربوںمیں اِس کا رواج تھا ۔رسول اللہ ۖ نے پہلے ایک مرتبہ اِس سے منع کیا ،پھر جنگ خیبر میں تین دن کے لئے اِس کی اجازت دی گئی اور اِس کے بعد قیامت تک کے لئے حرام کردیا گیا۔اب پوری اُمت کا متعہ کی حرمت پر اتفاق واجماع ہے ۔رسول اللہ ۖنے اِرشاد فرمایا : یَااَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ قَدْ کُنْتُ اَذِنْتُ لَکُمْ فِی الْاِ سْتِمْتَاعِ مِنَ النِّسَآئِ وَاِنَّ اللّٰہَ قَدْ حَرَّمَ ذٰلِکَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَة (مسلم شریف) یعنی اے لوگو!میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی رُخصت دی تھی اور اب اللہ تعالی نے اِس کو قیامت تک کے لئے حرام کردیا ہے۔ بقیہ : اِجماع اُمت اور قیاس شرعی کے منکر سوچنے کی بات ہے کہ مذکورہ بالا تمام کاموں کے لیے اِس نومولود فرقہ کو سرمایہ کہاں سے ملا؟ ظاہر ہے کہ تمام سرمایہ انگریز حکومت نے مہیا کیا ہوگا جس کی مقصد برآری کے لیے یہ فرقہ وجود میں آیا تھا۔ مذکورہ بالا تمام کارکردگی اُن کی اپنی کتاب ''علمائے حدیث کی علمی خدمات'' میں مذکور ہے، اُس میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ آخر میں اِلتماس ہے کہ بندہ نے یہ تمام کاوش سادہ لوح احناف کو اُن کے شر سے بچانے کے لیے کی ہے تاکہ اُن کا عمل بالقرآن والحدیث کا دعوٰی طشت ِازبام ہوجائے اور ہمارے اہل سنت والجماعت حنفی