ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2007 |
اكستان |
|
کے ساتھ گزرکر نجات پالی ہے یا جہنم میں گرپڑا ہے۔ قسط : ١ مسائل ِموبائل ( حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصور پوری،انڈیا ) دورانِ درس موبائل پر گفتگو : سوال : زید ایک مدرسہ میں اُستاد ہے۔ دورانِ درس اُس کا موبائل بج رہا ہے تو کیا وہ درس روک کر اُس کا جواب دے سکتا ہے؟ کیا اِس سے اوقاتِ مدرسہ کے تحفظ میں کوتاہی تو نہیں ہے جبکہ موبائل کا جواب دیے بغیر یہ تعین مشکل ہے کہ فون ضروری ہے یا غیر ضروری؟ اِسی طرح زید ایک حفظ کا مدرس ہے۔ طالب علم کا قرآن سن رہا ہے۔ درمیان میں موبائل کی گھنٹی بجی تو قرآن سنانے والے طالب علم کی تلاوت روک کر موبائل کا جواب دیا یا تلاوت جاری ہے اور یہ اپنے موبائل میں بات کرے؟ کیا اِس سے منع عن ذکر اللہ والی بات لازم آئے گی؟ بِاسْمِہ سُبْحَانَہ وَتَعَالٰی الجواب وباللّٰہ التوفیق : موبائل پر گفتگو کرنا بھی آمنے سامنے گفتگو کرنے کے مانند ہے۔ بہتر یہ ہے کہ مدرسہ کے اوقات میں بالخصوص درس کے دوران موبائل پر گفتگو نہ کی جائے اور موبائل کو بند رکھا جائے۔ البتہ اگر کوئی نہایت ضروری گفتگو کرنی ہو تو اُس میں حد درجہ اختصار سے کام لیا جائے۔ خاص کر مدرسین ِحفظ کو اِس کا زیادہ اہتمام رکھنا چاہیے۔ اور جب بچے سبق سنارہے ہوں تو مدرسین کو موبائل پر یا کسی دُوسرے شخص سے بات میں مشغول نہیں رہنا چاہیے۔ اِس لیے کہ قرآن پاک میں تلاوت کے وقت خاموش رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی : وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہ