ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2007 |
اكستان |
|
حضرت شاہ صاحب کے اِس مضمون میں سے صرف اِتنا حصہ نقل کیا ہے : ''مقاتلات وے برائے طلب ِخلافت بود نہ بجہت ِاسلام'' ''حضرت علی رضی اللہ عنہ کی لڑائیاں طلب ِنفاذ خلافت کے لیے تھیں نہ کہ (کافروں سے) اسلام چاہنے کے لحاظ سے۔ '' مذکورہ بالاسیاق و سباق میں سے صرف اِتنے جُملے نقل کرکے اُنہوں نے اِسے حضرت معاویہ سے تقابل کا ذہن پیدا کرنے کے لیے لکھا ہے جو مسلک اہل ِسنت کے بالکل خلاف ہے اور جہاں یہ جملہ حضرت شاہ صاحب نے استعمال فرمایا ہے اور جن حالات اور مناظرانہ اَنداز میں یہ جملہ تحریر فرمایا ہے اِس سے مسلک اہل سنت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ اُنہوں نے اپنی اِسی کتاب میں اُن کے خوارج سے لڑائیوں کو اُن کی حقانیت کی دلیل بنایا ہے کہ رسول اللہ ۖ نے حضرت علی کے دَورِ خلافت میں اور اُن کے ہاتھ سے فرقۂ خوارج کے خاتمہ کی اطلاع دی تھی۔ جب اُن کا سب سے بڑا سردار ''ذوالثدیہ'' نہروان میں مارا گیا ۔ فَخَرَّرْنَا سُجُوْدًا وَخَرَّ عَلِیّ مَعَنَا سَاجِدًا (ازالة الخفاء ج٢ ص ٢٧٧ ) ''ہم فورًا سجدہ ریز ہوگئے اور ہمارے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی سجدہ کیا۔'' ایسے سرکشوں کا مارا جانا حضرت علی کے ہاتھوں مقدر تھا۔ جب جناب رسول اللہ ۖ نے یہ خبردی تو اُس وقت : قَالَ اَبُوْ بَکْرٍ اَنَا ھُوَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ لَا قَالَ عُمَرُ اَنَا ھُوَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ لَا وَلٰکِنْ ذٰلِکَ الَّذِیْ یَخْصِفُ النَّعْلَ وَقَدْ کَانَ اَعْطٰی عَلِیًّا نَعْلَہ یَخْصِفُھَا۔ (ازالة الخفاء ج٢ ص ٢٥٦ ) ''حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ کیا میں وہ شخص ہوں اے اللہ کے سچے رسول؟ اِرشاد فرمایا نہیں۔ حضرت عمر نے عرض کیا کیا وہ شخص میں ہوں اے اللہ کے رسول؟ فرمایا نہیں۔ وہ شخص وہ ہے جو میرا نعل مبارک سی رہا ہے۔ جناب رسول اللہ ۖ نے حضرت علی کو اپنا نعل مبارک سینے کے لیے دیا تھا۔'' حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے اِسے جناب ِرسول اللہ ۖ کی طرف سے منتظر الخلافت کا