ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2007 |
اكستان |
|
نے ترجمہ میں خیانت کی ہے۔ اُنہوں نے ''و حضرت مرتضیٰ نیز بخطائے اجتہادی حکم فرمود'' کا ترجمہ ''حضرت مرتضیٰ نے بھی خطائے اجتہادی سے کام لیا '' کیا ہے، جو بالکل غلط ہے۔ صحیح ترجمہ میں اُوپر لکھ چکا ہوں۔ اگر خیانت نہیں ہے تو عباسی صاحب کو شاید عربی پر عبور نہ ہوگا اِس لیے آگے حضرت علی کے فتوے کی عبارت نہیں لکھی اور یہ سمجھے کہ بات یہیں مکمل ہوگئی ہے ضَلُّوْا وَ اَضَلُّوْا خود بھی کم علمی کی وجہ سے گمراہ ہوئے دُوسروں کو بھی گمراہ کیا۔ حضرت شاہ صاحب نے حضرت زبیر کی حضرت علی سے جمل کے میدان میں گفتگو اپنی غلطی پر متنبہ ہونے کے بعد واپس ہونا اور حضرت طلحہ کا رُجوع کہ عین وفات کے وقت اُنہوں نے حضرت علی سے بیعت اُس شخص کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کلماتِ بیعت کہہ کر (بالواسطہ) حضرت علی سے بیعت کی تجدید فرمائی، پھر آپ کی وفات ہوگئی۔ (ازالة الخفاء ج٢ ص ٢٧٩۔٢٨٠) یہ سب کچھ لکھا ہے مگر عباسی صاحب نے فقط وہ شبہات ہی نقل کیے جو شاہ صاحب نے اِن حضرات کی خطاء اجتہادی کے ذیل میں ذکر کیے ہیں اور اِن ہی خطاء اجتہادی والے شبہات کو دلیل بناکر پیش کردیا ہے جبکہ اِن شبہات والے صحابۂ کرام نے اِن سے رُجوع بھی کرلیا تھا۔ یہ اِن کی تحریری ہیرا پھیری کی مثال ہے۔ ایسی ہی چیزیں عباسی صاحب کے اَفکار کی بنیاد ہیں۔ عباسی صاحب کے اِسی مضمون میں ص ٥٥ پر ایک اور حوالہ کا بھی یہی حال ہے۔ سورۂ اِنَّا فَتَحْنَا کی آیت قُلْ لِّلْمُخَلَّفِیْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ کی تفسیر میں شاہ صاحب نے حضرت صدیق اکبر اور فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہما کو اِس آیت کا مصداق قرار دیا ہے کہ اِنہوں نے اَعراب (عرب بدوئوں) کو ساتھ لے کر جہاد فرمایا ہے۔ تُقَاتِلُوْنَھُمْ اَوْ یُسْلِمُوْنَ اُن سے لڑوگے یا وہ مسلمان ہوجائیں گے۔ یہ بات حضرت ابوبکر میں پائی جارہی ہے۔ اِس کے مصداق نہ جنابِ رسول اللہ ۖ ہیں، نہ حضرت علی، نہ بنو اُمیہ، نہ بنوعباس۔ اِسی طرح مرتدین سے قتال کی آیت کے مصداق صدیق اکبر ہیں، حضرت علی نہیں ہیں کیونکہ اِن کا قتال یا باغیوں کے ساتھ ہوا ہے یا خوارج کے ساتھ ہوا ہے نہ کہ مرتدین کے ساتھ۔ (ازالة الخفاء ملخصًا ج ١ ص ٢٧٧ و ٢٧٨) عباسی صاحب نے خلافت ِ معاویہ و یزید ص ٥٥ پر اپنے مضمون میں تاثیر پیدا کرنے کے لیے