ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2007 |
اكستان |
فی اللہ کے ساتھ یا سیر فی اللہ فقط سے عبارت ہے اور نبوت سیر من اللہ الی العباد کا نام ہے اس لیے ذاتی حیثیت سے ولایت اعلیٰ اور اکمل ہوئی کہ اِس میں توجہ الی المحبوب الحقیقی اور حضور حاصل ہے۔ ٭ اَنَا مَدِیْنَةُ الْعِلْمِ یا اَنَا دَارُ الْحِکْمَةِ وَعَلِیّ بَابُھَا نہ تو صحیحَین میں ہے اور نہ روایت ذکر کرنے والے اِس کی تصحیح فرماتے ہیں۔ ٭ اَنَا مَدِیْنَةُ الْعِلْمِ اَصل الف اور لام میں عہد خارجی ہے جس کے معنی علی طریق الاصولیین والبیانیین فرد معین کا اِرادہ کرنا ہے خواہ اُس کا تعین عبارةً ہو یا ......... یا عملاً یا حسًا لہٰذا کیوں نہیں ممکن ہے کہ کسی خاص علم کا اِرادہ فرمایا گیا ہو اور واقعہ بھی یہی ہے کہ جناب رسول اللہ ۖ کے علوم متنوعہ تمام صحابہ کرام سے پھیلے۔ صرف تصوف کا نشو و نما حضرت علی کرم اللہ وجہہ' سے ہوا۔ دُنیا میں جس قدر بھی سلاسل طریقت ہیں سب کا مرجع حضرت علی کرم اللہ وجہہ' کا اسم ِگرامی ہے۔ نقشبندیہ کا ایک سلسلہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے مگر اُس میں انقطاع بہت زیادہ ہے۔ ٭ ''فُصُوْصُ الْحِکَمْ '' اعلی پیمانہ کی کتب میں سے ہے اور اِس کا حقیقی طور پر سمجھنا صرف اُن نفوس کے لیے ہوسکتا ہے جوکہ عوالم ِعلویہ کے مشاہدات سے فیض یاب ہوچکے ہیں۔ ماوشما کے لیے کیسے دُرست ہوسکتا ہے، اِس میں غلط فہمی اور غلط کارِی کا بہت زیادہ خطرہ ہے اس لیے خود شیخ ِ اکبر رحمة اللہ علیہ اور اُن کے مماثل کا مقولہ مشہور ہے ۔وہ فرماتے ہیں یَحْرُمُ عَلٰی مَنْ لَّیْسَ مِنْ اَھْلِنَا مُطَالَعَةَ کُتُبِنَا بہت سے شراح فصوص بھی اِس کو سمجھے یا نہیں ،اِس میں کلام ہے۔ ٭ اسرارِ تکوینیہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کیا پیش نہیں آیا حالانکہ ان کا تعلق اسی عالم شہادت کے ساتھ تھا، پھر تکوینیات علویہ اَسرار غیب میں ہم جیسوں کا کیا حال ہوگا، اس لیے اِس کو ترک کر دینا ہی ضروری ہے۔ ٭ ''صراطِ مستقیم'' ملفوظات حضرت سید احمد شہید رحمة اللہ علیہ اور'' امدادُ السلوک'' اور'' مکتوبات حضرت مجدد رحمة اللہ علیہ'' مطالعہ فرمائیے۔ اربابِ سکر جوکہ مغلوب بالسکر ہیں اُن کی تصانیف سے اُس وقت تک احتراز ضروری ہے جب تک کہ ہم کو اور آپ کو اُن کا مقام نہ حاصل ہوجائے۔ ٭ صلوٰةِ تہجد کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے صبح صادق تک ہے۔ حضرت عائشہ سے صحاح میں