ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2007 |
اكستان |
|
مائ، ہوا، نفس جمادی، نفس نباتی، نفس حیوانی وغیرہ )موجود ہیں۔ خلاصہ یہ کہ حضرت آدم علیہ السلام کے جسم میں وہ سب چیزیں اور قوتیں پیدا کی گئیں جوکہ اُن کی رُوح میں کامن اور مستتر تھیں ،اُس کی روح میں قوت باصر تھی اُس کو آنکھ دی گئی۔ اُس میں قوت ِبطش تھی اُس کو ہاتھ دیے گئے۔ وعلیٰ ہذا القیاس۔ اُس کی روح میں قوتِ حاسیہ تھی اِس لیے اُس کے جسم میں قوت ِحاسہ رکھی گئی۔ اُس کی روح میں قوتِ واہمہ تھی اُس کے دماغ میں یہ قوت رکھی گئی۔ اُس کی رُوح میں قوتِ بہیمیہ تھی اُس کے جگر میں یہ قوت رکھی گئی، علیٰ ہذا القیاس ۔اُس کو قلب دیا گیا تاکہ قوت ِ سمعیہ کا مرکز ہو۔ اُس کو دماغ دیا گیا تاکہ قوت ِ عقلیہ کا تخت سلطنت بنے، وھکذا۔ غرض کہ مبداء ِفیاض سے انسان پر فیض کامل کیا گیا اور اُس کی ظاہری اور باطنی دونوں طرح تکمیل فرمائی گئی۔ یہاں مخلوق ہے جس میں باطنی تکمیل ہے مگر ظاہری نہیں ہے جیسے فرشتے وغیرہ۔ یا ظاہری تکمیل ہے باطنی نہیں جیسے حیوانات اور پہاڑ، نباتات وغیرہ بخلاف انسان کے کہ وہ خلاصہ موجودات اور عالم ِاصغر بنایا گیا ہے۔ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْم ہم نے بنایا انسان کو خوب سے خوب انداز پر۔ ٭ اگر صورتہ کی ضمیر لفظ جلالہ کی طرف راجع کی جائے تو اِس کا جواب یہ ہے کہ صورت اِس جگہ بمعنٰی صفت ہے جیسے کہ مسائل عقلیہ غیر مادیہ کے لیے کہا جاتا ہے صورة المسئلة کذا وکذا صفتھا کذا وکذا یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی تمام صفات ِ کمالیہ میں سے حصہ دیا۔ ان کے ظلال و عکوس بتمامہا اِس میں دکھلائے اور (دُوسری) مخلوقات سب کو جامع نہیں ہیں جس طرح آئینہ مظہر نور شمس ہے اِسی طرح آدم علیہ السلام مظہر جملہ صفات ِکمالیہ جنات باری عز اسمہ بنائے گئے۔ ٭ اَلْوِلَایَةُ اَفْضَلُ مِنَ النُّبُوَّةِ (١)کسی حدیث کا جملہ نہیں ہے۔ بعض اکابر ِطریقت کی طرف نسبت کی جاتی ہے۔ کسی منصوص اور مجمع علیہ اَمر کے خلاف کسی شخص کا قول بھی معتبر نہیں ہوسکتا۔ (٢) ہم کو یہ نہیں معلوم کہ اُس بزرگ نے یہ قول حالت ِ سکر میں فرمایا ہے یا حالت ِ صحو میں۔ ظاہر ہے کہ سکر کا قول قابل اعتماد نہیں ہو سکتا ۔ (٣) اِس جملہ میں یہ نہیں کہا گیا کہ اَلْوَلِیُّ اَفْضَلُ مِنَ النَّبِیِّ جوکہ مجمع علیہ اور نص ِقطعی کے خلاف ہے بلکہ اَلْوِلَایَةُ اَفْضَلُ مِنَ النُّبُوَّةِ کہا گیا ہے۔ (٤) وِلَایَةُ النَّبِیِّ اَفْضَلُ مِنْ نُّبُوَّتِہ اس سے مراد لیا جاتا ہے غالبًا یہی معنی مراد ہیں کیونکہ ہر نبی کو مراتب ِولایت طے کرلینے ضروری ہیں اگرچہ وہ نہایت قلیل زمانہ بلکہ آن ِواحد میں ہوجائے فَکُلُّ نَبِیٍّ وَلِیّ وَلَاعَکْسَ چونکہ ولایت سیرالی اللہ فقط یا سیر